حضرت ہود علیہ السلام کا قصہ
حضرت ہود علیہ السلام
حضرت ہود علیہ السلام قوم عاد سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ عادہی کے شریف اور نیک گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ حضرت ہود علیہ السلام اللہ کی طرف سے قوم عاد کو سچائی کا راستہ دکھانے کے لئے بھیجے گئے تھے عاد کی قوم گمراہی میں مبتلا تھی ، طرح طرح کے برے کام کرنا ظلم زیادتی اور لوٹ مار کرنا ان کی عادت بن چکی تھی۔ خاص کر کمزور طبقہ ان کے ظلم و زیادتی کا شکار تھا، غریب کاشتکاروں کی زمینیں اور ان میں پیدا ہونے والا اناج مار دھاڑ کر چھین لیا کرتے تھے انہیں فصل اگانے کی بھی مہلت نہیں دیتے تھے، اس لئے کمزور طبقہ بھوک و افلاس میں اپنے دن گزارتا تھا۔
قوم عاد کا پیشہ کا شتکاری تھا، وہ زراعت کے طریقوں سے بھی اچھی طرح واقف تھے ۔ اس کے علاوہ پہاڑوں کی چٹانیں کاٹ کر ان پتھروں سے مضبوط عمارتیں بناتے پہاڑ کے غاروں میں بھی رہتے تھے پتھروں سے شکار کرتے تھے جانوروں کو آگ میں بھون کر کھاتے۔
عاد کے لوگ عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے تھے لیکن غریب اور محتاجوں کا خیال نہیں رکھتے تھے، بھوکوں کو کھانا نہیں کھلاتے بلکہ ان کے پاس جو کچھ بھی کھانے کے لئے ہوتا ، چھین لیتے تھے ، جو لوگ اللہ کو بھول کر پتھروں کو پوجتے ہیں ان کے دل رحم سے خالی ہوتے ہیں۔ عاد کی قوم بھی مورتیوں کو پوچتی تھی ۔ عاد کی قوم کے لوگ ان کے آگے سجدہ کرتے ان سے مرادیں مانگتے۔
حضرت ہود علیہ السلام اللہ کے نبی تھے وہ بت پرستی سے روکتے تھے ظالموں کو ظلم کرنے سے روکتے ، ایک اللہ کی طرف بلاتے آپ اپنی قوم سے کہتےاے قوم ، اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں، وہی ایک ذات ہے جس کی عبادت کرنی چاہئے جس نے زمین آسمان شجر اور حجر کو پیدا کیا ۔ اے قوم تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو پوج رہے ہو؟ ان بتوں کی پوجا سے تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا یہ تمہاری سراسر جہالت اور گمراہی ہے بہتر یہی ہے تم ان بتوں سے منہ موڑ لو جنہیں تم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے ۔
حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں اور ساری کائنات کو پیدا کیا۔ زمین میں رزق کا سامان پیدا کیا۔ تم کھیتی باڑی کرتے ہو تم زمین سے زیادہ سے زیادہ اناج حاصل کرتے ہو ، اس کے باوجود تم دوسروں کا اناج چھینتے ہو، بلکہ تمہیں تو چاہتے تھا کہ اپنے اناج میں سے محتاجوں اور غریبوں کا حصہ نکالتے ، بھوکوں کو کھانا کھلاتے تاکہ وہ بھی تمہاری طرح زندہ رہ سکیں لیکن تم ایسا نہیں کرتے۔ جو کچھ اللہ نےتمہیں دیا ہے اس کا شکر بجالاؤ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جن کے پاس اناج نہیں ہے تم انہیں کھانے پینے کا سامان دو اگر تم ایسا نہیں کرتے تو یہ تمہاری بدبختی کی علامت ہے۔
حضرت ہود علیہ السلام کی نصیحتیں سن کر لوگ جواب دیتے: ہم سے کیا چاہتے ہو ہم جو کچھ کرتے ہیں ہماری اپنی مرضی ہے، ہم اپنی محنت سے اناج پیدا کرتے ہیں ہم کسی بھوکے کو کیوں کھلائیں ، ہمارے پاس جتنا اناج ہو گا ہم طاقتور کہلائیں گے ہم وہی کرتے ہیں جو ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے۔
حضرت ہود علیہ السلام کہتے کہ مجھے اللہ نے نبی بنا کر بھیجا ہے تا کہ تم کو اچھی باتیں بتاؤں اور بری باتوں سے آگاہ کروں اور برے کاموں کو روکوں اگر تم صحیح اور سیدھا راستہ پر نہیں چلو گے تو اللہ کے عذاب سے نہیں بیچ سکتے ۔ حضرت ہود علیہ السلام بار بار اپنی قوم کو نصیحت کرتے رہے ایک مرتبہ پھر آپ نے ان ہی باتوں کو دہرایا اے قوم میری بات مان لو، میں تمہارا بھلا چاہتا ہوں، جو کچھ میں کہتا ہوں اس میں تمہاری بھلائی ہے۔“ حضرت ہود علیہ السلام نرمی سے سمجھاتے کہ کسی کمزور پر ظلم نہ کرو کسی کا رزق تنگ نہ کرو۔ انہیں پیار سے سمجھاتے کہ اے قوم میں تمہارا بھائی ہوں اور دوست ہوں میں تم سے کچھ نہیں مانگتا میں جو کچھ کرتا ہوں اس کا صلہ مجھے اللہ دے گا۔
قوم کا شبہ دور کرتے ہوئے کہتے اے قوم کیا تم یہ سمجھ رہے ہو کہ مجھ پرکو پوجتے ہیں ان کے دل رحم سے خالی ہوتے ہیں۔ عاد کی قوم بھی مورتیوں کو پوچتی تھی ۔ عاد کی قوم کے لوگ ان کے آگے سجدہ کرتے ان سے مرادیں مانگتے۔
حضرت ہود علیہ السلام اللہ کے نبی تھے وہ بت پرستی سے روکتے تھے ظالموں کو ظلم کرنے سے روکتے ، ایک اللہ کی طرف بلاتے آپ اپنی قوم سے کہتےاے قوم، اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں، وہی ایک ذات ہے جس کی عبادت کرنی چاہئے جس نے زمین آسمان ، شجر اور حجر کو پیدا کیا ۔ اے قوم تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو پوج رہے ہو ؟ ان بتوں کی پوجا سے تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا یہ تمہاری سراسر جہالت اور گمراہی ہے بہتر یہی ہے تم ان بتوں سے منہ موڑ لو جنہیں تم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے ۔
حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں اور ساری کائنات کو پیدا کیا۔ زمین میں رزق کا سامان پیداکیا۔ تم کھیتی باڑی کرتے ہو تم زمین سے زیادہ سے زیادہ اناج حاصل کرتے ہو ، اس کے باوجود تم دوسروں کا اناج چھینتے ہو، بلکہ تمہیں تو چاہتے تھا کہ اپنے اناج میں سے محتاجوں اور غریبوں کا حصہ نکالتے ، بھوکوں کو کھانا کھلاتے تاکہ وہ بھی تمہاری طرح زندہ رہ سکیں لیکن تم ایسا نہیں کرتے۔ جو کچھ اللہ نےتمہیں دیا ہے اس کا شکر بجالاؤ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جن کے پاس اناج نہیں ہے تم انہیں کھانے پینے کا سامان دو اگر تم ایسا نہیں کرتے تو یہ تمہاری بدبختی کی علامت ہے۔حضرت ہود علیہ السلام کی نصیحتیں سن کر لوگ جواب دیتےہم سے کیا چاہتے ہو ہم جو کچھ کرتے ہیں ہماری اپنی مرضی ہے، ہم اپنی محنت سے اناج پیدا کرتے ہیں ہم کسی بھوکے کو کیوں کھلائیں، ہمارے پاس جتنا اناج ہو گا ہم طاقتور کہلائیں گے ہم وہی کرتے ہیں جو ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے۔
حضرت ہود علیہ السلام کہتے کہ مجھے اللہ نے نبی بنا کر بھیجا ہے تا کہ تم کو اچھی باتیں بتاؤں اور بری باتوں سے آگاہ کروں اور برے کاموں کو روکوں اگر تم صحیح اور سیدھا راستہ پر نہیں چلو گے تو اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے “ حضرت ہود علیہ السلام بار بار اپنی قوم کو نصیحت کرتے رہے ایک مرتبہ پھر آپ نے ان ہی باتوں کو دہرایا اے قوم میری بات مان لو، میں تمہارا بھلا چاہتا ہوں، جو کچھ میں کہتا ہوں اس میں تمہاری بھلائی ہے۔“ حضرت ہود علیہ السلام نرمی سے سمجھاتے کہ کسی کمزور پر ظلم نہ کرو کسی کا رزق تنگ نہ کرو۔ انہیں پیار سے سمجھاتے کہ اے قوم میں تمہارا بھائی ہوں اور دوست ہوں میں تم سے کچھ نہیں مانگتا میں جو کچھ کرتا ہوں اس کا صلہ مجھے اللہ دے گا۔
قوم کا شبہ دور کرتے ہوئے کہتے اے قوم کیا تم یہ سمجھ رہے ہو کہ مجھ پرایمان لاؤ گے تو تمہاری کھیتی باڑی برباد ہو جائے گی اور تمہارے عیش و عشرت میں خلل پڑے گا۔ ایسا کبھی نہ سو چواگر تم بتوں کی پوجا چھوڑ دو اور مجھ پر ایمان لاؤ تو اللہ تعالی تمہارے مال اور اولاد میں برکت دے گا تمہیں قوت عطا کرے گا۔
آپ نے اگلے زمانے کی باتیں یاد دلاتے ہوئے کہا اے قوم کیا اللہ نے گمراہوں کو ہدایت دینے کے لئے حضرت نوح علیہ السلام کو نبی بنا کر نہیں بھیجا تھا اس قوم نے اللہ کی باتوں کا انکار کیا تو کس طرح اللہ کے عذاب نے انہیں پکڑ ا تھا پھر تم میرے نبی ہونے کا کیوں انکار کرتے ہو۔
آپ نے بتوں کے بارے میں فرمایا، یہ بت جسے تم اپنا معبود سمجھتے ہو یہ نہ کسی کے ساتھ بھلائی کر سکتے نہ یہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے بلکہ تم خود اپنا نقصان کر رہے ہو آپ نے انہیں آگاہ کرتے ہوئے کہا اے قوم تمہارے چھوٹے معبودوں پر نہ میں ایمان لاؤں گا نہ ان سے ڈروں گا میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو تمہارا اور ہمارا پروردگار ہے۔ ۔ قوم عاد کے لوگ برابر صیحتیں سنتے لیکن کوئی توجہ نہیں دیتے ایک کان سے سنتے تو دوسرے کان سے اڑا دیتے۔
ایک روز قوم عاد کے لوگوں نے حضرت ہود علیہ السلام سے پوچھا کہ تم بار بار نبی ہونے کا دعوی کرتے ہو تو اس کی تمہارے پاس کیا دلیل ہے ہمیں دلیل دکھاؤ ۔ ہم دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں بغیر دلیل دیکھے ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑیں گے اور یہ بھی بتاؤ کہ جس عذاب کی بات کر کے ہمیں ڈرا رہے ہو وہ عذاب کب آنے والا ہے؟
حضرت ہود علیہ السلام نے جواب دیا کہ تم مجھ سے سوال کرتے ہو کہ عذاب کب آنے والا ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے میں تو صرف اللہ کا پیغام پہنچانے والا ہوں اور آنے والے عذاب سے خبردار کرنے والا ہوں ، ان تمام کو ششوں کے باوجود گمراہ قوم راہ راست پر نہ آئی۔ اللہ کے غضب نے جوش مارا اور عذاب کے آثار پیدا ہونے لگے بارش نہیں ہوئی پانی کی بے حد قلت پڑ گئی، خشکی سے زمین چٹخنے لگی کنوئیں سوکھنے لگے، کھیتوں میں آب پاشی کے لئے بھی پانی نہیں تھا درخت پودوں کی ہریالی ماند پڑنے لگی، پھول مرجھانے لگے۔
قوم عاد پانی کے لئے ترس رہی تھی ، پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہیں تھا حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا۔ اے میری قوم اپنے رب سے گناہ بخشو اؤ اور پھر رجوع کرو تا کہ اللہ بارش برسائے۔
نا فرمان لوگوں نے کہا کہ ہم اپنے گناہ نہیں بخشوا ئیں گے اور تمہیں رسول بھی نہیں مانیں گے ۔ لوگ بارش کے لئے ہر وقت آسمان کی طرف دیکھتے رہے، شاید کہیں سے بادل آجائے اور بارش برسائے۔ ایک روز ایسا ہی ہوا بادل کا ایک ٹکڑ انظر آ گیا لوگ دیکھ کر خوش ہونے لگے کہ اب بارش ہوگی ۔ حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا ، جو تم دیکھ رہے ہو یہ برسنے والا بادل نہیں ہے یہ بادل نہیں بلکہ عذاب کی علامت ہے ۔ جس عذاب کی میں خبر دیتا تھا اس کا وقت آ پہنچا ہے جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ کہہ چکا۔جو لوگ حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لا چکے تھے ان کے بارے میں حضرت ہود علیہ السلام سے اللہ نے فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کو اپنے ساتھ لے کر کسی محفوظ مقام کے طرف چلے جاؤ چنانچہ حضرت ہود علیہ السلام ایمان والوں کو ساتھ لے کر نکل گئے۔ شہر میں اب کوئی ایمان دار نہیں رہا۔ لوگوں نے دیکھا کہ آسمان پر بادل کے ٹکڑے تیر رہے ہیں ہوائیں چلنی شروع ہوئیں ہوا میں اتنی تیزی تھی کہ پہلے نہ کسی کان نے سنا نہ کسی نے دیکھا تھا ، دیکھتے ہی دیکھتے آندھی چلنے لگی یہاں تک کہ اپنا ہاتھ بھی بجھائی نہیں دیتا تھا ہر طرف مٹی اور دھول اڑ رہی تھی، بڑے بڑے درخت جڑ سے اکھڑ نے لگے، ہر طرف اندھیرا چھا گیا ہر شے ہوا میں اڑنے لگی آدمی بھی نہیں ٹھہر سکتا تھا نہ بیٹھ سکتا تھا ہوا کے زور سے بڑی بڑی مضبوط عمارتیں بھی گر گئیں ہر طرف چیخ و پکار کی آوازیں ہواؤں کے شور میں دب کر رہ گئیں۔
قوم عاد کو اپنے مضبوط مکانوں پر بڑا ناز تھا، یہ تمام مکانات زمین بوس ہو گئے ، زمین پر کچھ بھی نہیں بچا۔ یہ آندھی آٹھ دن اور سات راتیں رہی جب آندھی تھی تو لاشوں کا پتہ بھی نہیں تھا۔ عاد کی قوم نے غرور و تکبر کیا ، ایک اللہ کو چھوڑ کو بتوں کو ماننے لگے ان ہی سے مرادیں مانگا کرتے تھے نبی کی باتوں کا انکار کیا جب عذاب کے دن قریب آنے لگے تو اللہ نے نیک لوگوں کو بچالیا، گمراہوں کو عبرت ناک سزاملی ۔ عاد کی قوم کا صرف کتابوں میں ذکر پایا جاتا ہے۔ تباہ شدہ شہر کے کھنڈرات آج بھی درس عبرت دینے کے لئے زمین پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
حضرت ہود علیہ السلام کا مقبرہ حضر موت میں مکلہ سے نوے میل شمال کی جانب ہے۔ اس کے چاروں طرف کھنڈرات اور کتبے کثرت سے بکھرے پڑے ہیں ۔ لوگ ہر سال رجب کے مہینے میں اس مقبرے کی با زیارت کرتے ہیں۔
***
Good post
ReplyDelete