حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ
حضرت یوسف علیہ السلام
حضرت یعقوب علیہ السلام شام کے ایک علاقہ کنعان میں رہتے تھے ان کے بارہ بیٹے تھے۔ ان میں حضرت یوسف علیہ السلام بھی تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نہایت خوبصورت اور نیک تھے، ان کی نیکی اور فرمانبرداری کے سبب حضرت یعقوب علیہ السلام ان کو بہت چاہتے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے ایک بھائی کا نام بن یامین تھا۔ حضرت یوسف اور بن یامین سگے بھائی تھے اور باقی دس بھائی سوتیلے تھے۔
ایک رات حضرت یوسف نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا انہوں نے اپنا خواب اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام سے بیان کیا انہوں نے بیان کیا کہ ابا جان میں نے خواب دیکھا کہ چاند سورج اور تارے مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ یہ کیسا خواب ہے؟ حالانکہ کائنات کا ہر ذرہ اللہ ہی کو سجدہ کرتا ہے وہی اس کے لائق بھی ہے۔
باپ نے بیٹے کا خواب سن کر فرمایا: اے یوسف یہ ایک اچھا خواب ہے اللہ تعالیٰ تمہیں بہت بڑا مرتبہ بخشے گا لیکن بھائیوں سے ذکر نہ کرنا ہو سکتا ہے کہ تمہارے بھائی تم سے دشمنی کریں۔ اللہ تمہیں نبوت عطا کرے گا، جس طرح تمہارے خاندان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تمہارے داداحضرت اسحاق علیہ السلام کو نبی بنایا تھا تم بہت خوش نصیب ہو۔
خواب سننے کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کو بہت چاہنے لگے ان کے دوسرے بھائیوں میں وہ خوبی نہیں تھی۔ بھائیوں نے دیکھا کہ حضرت یوسف اپنے باپ کے بہت زیادہ قریب ہیں بھائیوں کے دل میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی ، اس زمانے میں یہ رواج تھا کہ جس گھرانے میں زیادہ افراد ہوں یا جس کی اولاد کی تعداد زیادہ ہوا سے معاشرے میں برتری حاصل رہتی تھی اسے طاقتور سمجھا جاتا تھا، اسے فتح مندی کی علامت سمجھا جاتا وہ گھرانہ قوت اور فتح مندی کی علامت تصور کیا جاتا۔ ایسے گھرانے کی کسی سے جنگ ہو جائے یا کوئی مصیبت آن پڑے تو وہ قوت کے بل بوتے پر کامیاب ہو جاتا ۔ اور جنگ ہوتی تو فتح حاصل کر لیتا اسی بناء پر یوسف کے بھائیوں کا کہنا تھا کہ ہم جسمانی قوت کے مالک ہیں اور بہادر بھی ہیں ۔ آڑے وقت پر ہم کام بھی آسکتے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارا باپ ہمیں نہیں چاہتا ، ہمارا باپ غلطی پر ہے ہمارے مقابلے میں یوسف بہت زیادہ کمزور ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے باپ کا دماغ چل گیا ہے اس لئے وہ ہمیں نہیں چاہتے ، ان کی نگاہ میں یوسف ہی سب کچھ ہے ہم کچھ نہیں ہیں ہمیں اس کے لئے کیا کرنا چاہئے۔
ایک دن ایسا ہوا کہ مشورہ کے لئے آپس میں سب بھائی ایک جگہ جمع ہوئے باتیں ہوئیں ہر ایک نے اپنی اپنی رائے اور خیالات کا اظہار کیا جس کی جو سمجھ میں آیا کہا ان میں سے ایک نے کہا کہ یوسف کو جان سے مارڈالنا چاہئے ، دوسرے نے کہا کہ نہیں جان سے مارنا اچھا نہیں ہے بلکہ اندھے کنوئیں میں ڈال دینا چاہئیے ایسی صورت میں کسی کی بھی نظر پڑ سکتی ہے، وہ اٹھا کر لے جائے گا اس بات کی سب نے تائید کی اور کہا کہ یہی بہتر ہے یوسف نہ ہو تو ہماری قدر ہو گی ۔ ہم باپ کے منظور نظر ہوں گے ہمیں باپ کا پیار ملے گا سب نے یہی بات کہی۔
چنانچہ ایک دن یوسف کے سوتیلے بھائیوں نے باپ سے کہا۔
ابا جان ہم لوگ سیر کے لئے جارہے ہیں وہاں ہم سب کھیلیں گے، تماشہ بھی دیکھیں گے اپنا دل بھی بہلائیں گے ہمارے ساتھ یوسف کو بھی بھیج دیجئے وہ بھی ہمارے ساتھ ساتھ رہے گا اس کا دل بھی بہل جائے گا۔
باپ نے کہا کہ میرا دل نہیں چاہتا کہ میں یوسف کو اپنی نظروں سے دور کروں ۔
بیٹوں نے باپ سے کہا کہ کیا آپ ہم پر بھروسہ نہیں کرتے ہم تو یوسف کو بہت چاہتے ہیں اس سے محبت بھی کرتے ہیں ہم سب اس کی نگہبانی کریں گے ساتھ لے جائیں گے اور ساتھ لائیں گے۔
باپ نے بیٹوں سے کہا اگر تم لوگ لے جاؤ گے تو مجھے غم ہو گا میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم غفلت میں رہ جاؤ اور بھیڑیا اٹھا کر لے جائے ۔
بیٹے بولے ” ہم غفلت میں نہیں رہیں گے ہم سب ایک ساتھ جارہے ہیں اکٹھے سیر کریں گے ہم سب کے ہوتے ہوئے بھیڑیا کس طرح لے جائے گا۔
باپ نے بیٹوں سے کہا کہ یوسف کو لے جاؤ، اور ساتھ لے آؤ میں انتظار کروں گا میری آنکھیں دیکھنے کے لئے ترستی رہیں گی۔ سب نے باپ سے اجازت لے لی، یوسف کو ساتھ لیا اور انجانے مقام کی طرف چل پڑے جگہ سنسان تھی راستہ طے کرتے رہے دور ایک کنواں نظر آیا، بھائیوں میں سے ایک نے کنوئیں کی طرف اشارہ کیا، آپس میں باتیں ہوئیں سب کنوئیں کی طرف گئے یوسف کا کرتہ اتارا سب نے مل کر یوسف کو کنوئیں میں دھکیل دیا۔ یوسف چیختا رہا مگر کسی کو رحم نہ آیا ، اس کے بعد کسی جانور کو مارا اور اس کے خون سے یوسف کا کرتہ رنگ دیا ۔ کر تہ خون سے لال ہو گیا ۔ اندھیرا ہو چلا تھا۔
سب باپ کے پاس پہنچے، کہا کہ کھیلنے کے دوران ہم دوڑ نے لگے بازی لگائی کہ کون سب سے آگے جاتا ہے، یوسف نے دوڑ میں حصہ نہیں لیا ہم سب نے اسے سامان کی نگہبانی کے لئے بٹھا دیا، یہ کہتے ہوئے سب نے بناوٹی رونا شروع کیا تا کہ باپ کو یقین آجائے، پھر کہا کہ وہاں یوسف اکیلا سامان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک کسی طرف سے بھیڑیا آیا اسے اٹھا کر ہلے گیا۔ ہم یوسف کو بچانے کے لئے سب مل کر دوڑے لیکن بھیڑیے تک ہم نہیں پہنچ سکے۔ یہ یوسف کا خون آلود کرتہ ہے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے لڑکوں سے کہا کہ مجھے یقین نہیں آتا جو کچھ تم لوگ کہہ رہے ہو وہ جھوٹ ہے میں اللہ سے مدد مانگتا ہوں کہ وہ مجھے صبر جمیل عطا کرے۔“ حضرت یعقوب، یوسف کی یاد میں روتے رہے۔
بھائیوں نے یوسف کو کنوئیں میں پھینک دیا اور واپس لوٹ آئے اللہ کی قدرت یہ کہ جہاں کنواں تھا اسی راستہ سے تاجروں کا ایک قافلہ گزر رہا تھا ، قافلہ والوں نے کنواں دیکھا تو پانی کی حاجت محسوس ہوئی پانی لینے کے لئے ان میں سے ایک شخص کنوئیں کے پاس پہن ب شخص کنوئیں کے پاس پہنچا جیسے ہی اس نے ڈول ڈالا تو دیکھا کہ کنوئیں میں پانی نہیں ہے ایک لڑکا شیخ رہا ہے اس نے اپنے ساتھیوں کو خبر دی سب مل کر آئے یوسف کو کنوئیں سے نکالا سب حیرت زدہ تھے کہ معاملہ کیا ہے، سب سوچ رہے تھے کہ لڑکا کیوں کر کنوئیں کے اندر گرا؟
قدیم زمانے میں انسانوں کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی جو بھی کسی آدمی کو خریدتا اسے غلام بنا کر اپنے پاس رکھتا اور محنت و مشقت کراتا ظلم و تشدد بھی کرتا ، چنانچہ یہ قافلہ مدین سے مصر کی طرف جارہا تھا قافلہ والوں نے آپس میں کہا کہ اس لڑکے کو فروخت کر کے کافی منافع حاصل کریں گے پھر یوسف کو مصر لے گئے ۔ کہتے ہیں مصر کے بادشاہ کا ایک وزیر تھا جسے عزیز مصر کہتے تھے۔ مصر میں اسے بادشاہ کے بعد پورے اختیارات حاصل تھےخزانے کا محکمہ بھی اسی کے پاس تھا اس نے قافلہ والوں سے بہت ہی کم معاوضہ دے کر خرید لیا۔
عزیز مصر کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی یہ اس کے لئے ایک اچھا موقع تھا اسے اولاد کی خواہش بھی تھی عزیز مصر اور اس کی بیوی نے اسے پالنا شروع کیا حضرت یوسف کی عمر جب اٹھارہ سال ہوئی اور اس میں سمجھداری پیدا ہوئی تو اسے گھر میں پورے اختیارات حاصل ہو گئے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہی عزیز مصر کا حقیقی بیٹا ہے اس کی پرورش بھی اولاد کی طرح ہی ہوئی حضرت یوسف بعض کاموں میں عزیز مصر کا ہاتھ بٹانے لگے صاحب حیثیت گھرانے میں پرورش پانے کے سبب مزاج ، عادات و اطوار میں بھی تبدیلی آگئی انتظامی امور کو انجام دینے کی تربیت بھی حاصل ہوگئی، نیکی اور پرہیز گاری میں بھی ایک مثالی حیثیت رکھتے تھے۔
اللہ نے حسن اور خوبصورتی دے رکھی تھی ، جو عورت بھی دیکھتی فریفتہ ہو جاتی ، عزیز مصر کی بیوی کی بھی نیت خراب ہو گئی حالانکہ اس نے بیٹے کی طرح پرورش کی تھی ، لیکن وہ بھول چکی تھی، یوسف کو جب دیکھتی تو دیکھتی ہی رہ جاتی وہ چاہتی تھی کہ یوسف ہر وقت اس کے سامنے ہی رہے۔ عزیز مصر کی بیوی کا نام زلیخا تھا ، زلیخا نے یوسف کو ترغیب دی کہ اس کے قریب ہو جائےزلیخا کیا چاہتی ہے یوسف بھانپ گئے اور پیچھے ہٹنا شروع کیا اور کہاکہ خدا کی پناہ مجھ سے ایسی حرکت نہیں ہو سکتی یہ سراسر گناہ ہے۔ ایک دن زلیخا نے حضرت یوسف کو کمرے میں بلا کر دروازہ بند کیا اور اپنی خواہش کا اظہار کیا تو یوسف نے کہا کہ میں اپنے رب کی پناہ میں ہوں ، پھر وہ کمرے سے باہر نکلنے کے لئے دروازہ کی طرف دوڑے تو زلیخا بھی اسے پکڑنے کے لئے دوڑی پیچھے سے کرتے کا دامن بھینچ لیا تو کرتہ تار تار ہو گیا اتفاق سے عزیز مصر بھی آ رہا تھا اسے اچانک آمنے سامنے دیکھ کر زلیخا نے جھوٹ بولنا شروع کیا کہ یوسف کی نیت اچھی نہیں ہے وہ مجھ سے بد تمیزی کرنا چاہتا تھا میں دوڑی۔
یوسف نے جواب دیا کہ میں بے گناہ ہوں، زلیخا مجھ پر تہمت لگا رہی ہے۔ عزیز مصر نے یوسف سے کہا کہ میں نے تمہیں اپنی اولاد کی طرح پالا تم نے اس کا اچھا بدلہ نہیں دیا۔ زلیخا نے عزیز مصر سے کہا کہ اسے قید کر لیا جائے اور سخت سزادی جائے تا کہ زندگی بھر یادر ہے۔ اس گھرانے کا ایک آدمی سب کچھ سمجھ گیا اسے زلیخا کی باتوں پر یقین نہیں تھا وہ اس کے مزاج و عادت سے واقف تھا، گرچہ زلیخا کی زندگی میں یہ پہلا واقعہ تھا یوسف کی خوبصورتی نے اس کا دل موہ لیا اس آدمی نے اپنی دانشمندی سے عزیز مصر کا غصہ ٹھنڈا کیا اس نے کہا کہ اگر یوسف کا کرتہ سامنے سے پھٹا ہوا ہو تو یوسف قصور وار ہے اگر کرتہ پیچھے سے پھٹا ہو تو زلیخا سے غلطی سرزد ہوئی ہے۔
عزیز مصر نے دیکھا کہ یوسف کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا ہے اس کامطلب یہ ہے کہ یوسف بھاگ رہا تھا زلیخا نے کرتہ پکڑ کر کھینچا، حضرت یوسف اللہ کے نبی تھے نیک اور پاک باز تھے وہ گناہ کی طرف مائل نہیں ہوئے۔ قربان جائیے اللہ کی یہ کیسی مصلحت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک عام گھرانے میں پیدا ہوئے مگر ان کی پرورش شاہی محل میں ہوئی فرعون کے کوئی اولاد نہ تھی۔
حضرت یوسف علیہ السلام بھی ایک عام گھرانے میں پیدا ہوئے ان کی پرورش عزیز مصر نے کی۔ وہ بھی اولاد سے محروم تھا اللہ تعالیٰ کسی کو اعلیٰ مرتبہ بخشتا ہے تو اس کے مزاج اور ماحول کو پہلے ہی سے بدل دیتا ہے، عزیز مصر نے یوسف سے اور کچھ نہیں کہا، مگر زلیخا پر لعنت ملامت کرنا شروع کیا۔ آخر یوسف کے اندر کیا خوبی ہے تم اس کی طرف مائل ہو گئیں۔ زلیخا نے جواب دیا میں تم سب کو آزمائش میں ڈالوں گی، جس آزمائش سے گزری ہوں۔ چنانچہ ایک روز عزیز مصر کی بیوی نے تمام عورتوں کو کھانے پر بلایا عورتیں مجلس میں آئیں اور سب کے سامنے کھانے کے لئے ایک ایک پھل اور ایک ایک چاقو رکھ دیا پھر یوسف کو عورتوں کی مجلس میں بلایا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام جیسے ہی جس میں حاضر ہوئے تمام عورتیں د دیکھ کر بے ہوش سی ہوئیں، ایک نشہ سا طاری ہو گیا چاقو سے پھل کاٹنے کی بجائے سب نے اپنی اپنی انگلیاں کاٹ لیں۔ انگلیوں سے خون بہنے لگا۔
زلیخا نے برا بھلا کہنے والی عورتوں سے کہا کہ تم سب کو کیا ہو گیا کہ تم ہوش میں نہ رہیں، پھل کاٹنے کی بجائے اپنی اپنی انگلیاں کاٹ لیں ، عورتوں نے کہا کہ ماشاء اللہ یہ تو بشر نہیں ہے یہ تو فرشتہ ہے فرشتہ ۔ اسے دیکھ کر تو ہمارے ہوش اڑ گئے ۔
زلیخا نے کہا کہ تم سب عورتیں مجھے بدنام کرنے پر تلی ہوئی تھیں اب تم سب کا حال ایسا کیوں ہو ا تم نے تو دیکھ کر پھل کاٹنے کی بجائے انگلیاں کاٹ لیں زلیخا نے عورتوں سے کہا کہ میں نے اسے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی لیکن وہ مجھ سے بچ نکلا ، اگر اس نے میری بات نہ مانی تو میں اسے قید کروا دوں گی اس پر یوسف نے فرمایااے رب مجھے قید پسند ہے، مگر اس کے پاس جانا پسند نہیں ہے۔ اے رب مجھے تو ہی بچا سکتا ہے، اگر اس کے قریب آجاؤں تو میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں گا۔
اللہ نے یوسف کو بچا لیا ۔ زلیخا کی جب زیادہ بدنامی ہونے لگی، یوسف نے بھی قریب آنے سے انکار کر دیا تو یوسف کو قید خانے میں ڈال دیا گیا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی نیکی کا چرچہ سارے شہر میں تھا، یہ بات ہر عورت جانتی تھی حضرت یوسف علیہ السلام قید خانے میں تھے اور اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے قید خانے میں لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے تھے، یوسف جب قید میں تھے تو ان کے بعد دو اور نئے قیدی بھی قید خانے میں آئے ان میں ایک شخص وہ تھا جو بادشاہ کو شراب پلایا کرتا تھا دوسرا قیدی باورچی خانہ کا افسر تھا ۔ دونوں نے کوئی قصور کیا تھا اس لئے بادشاہ نے اس کی سزادی تھی حضرت یوسف علیہ السلام لوگوں کو سچا راستہ دکھاتے تھے اللہ کا حکم بیان کرتے تھے، اسی لئے قید خانے کے لوگ حضرت یوسف علیہ السلام سے عقیدت رکھتے تھے، اور یہ جانتے تھے کہ یوسف نیک اور پارسا ہے اسی لئے دونوں میں سے ایک شخص نے حضرت یوسف علیہ السلام سے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں بادشاہ کو شراب پلا رہا ہوں اس خواب کی کیا تعبیر ہے، دوسرے نے کہا کہ میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے سر پر روٹیاں رکھی ہوئی ہیں اور پرندے میرے سر پر رکھی ہوئی روٹیوں کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں، اس کی تعبیر بھی نے بتادیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب کی تعبیر بتانے سے قبل ان سے کہا کہ تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا کرتے ہو اللہ ہی عبادت کے لائق ہے مگر تم لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی پوجا کرنی شروع کر دی اس لئے تم لوگ غلط راستے پر ہو۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا باپ حضرت یعقوب ، میرے دادا اسحاق اور پردادا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ ہمارے باپ دادا اور پردادا اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبر تھے جو صرف ایک اللہ کو مانتے تھے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے ہم سب پر اللہ کا فضل ہے لیکن بہت سے لوگ شکر نہیں کرتے۔ حضرت یوسف علیہ السلام قدیوں کو تبلیغ کرتے تھے انہیں نیکی کی باتیں بتایا کرتے تھے۔ قیدیوں کے دلوں پر یوسف کی باتوں کا بہت اثر ہوا۔ دونوں قیدی اللہ پر ایمان لے آئے اور کہا کہ اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر تمہارے باپ دادا کے دین پر ایمان لاتے ہیں۔
پھر دونوں نے حضرت یوسف علیہ السلام سے کہا کہ ہم نے جو خواب دیکھا ہے اس کی تعبیر بھی بتا دیں آپ جو کچھ بتائیں گے وہی سچ ہوگا اس پر حضرت یوسف علیہ السلام نے بتایا کہ جس نے خواب میں دیکھا کہ شراب پلا رہا ہے، وہ اپنے آقا کو شراب پلائے گا اور جس کے سر پر روٹیاں تھیں اور پرندے روٹیاں کھا رہے تھے وہ سولی پر چڑھے گا۔ آپ نے بادشاہ کو شراب پلانے والے سے کہا جب تو رہا ہو کر بادشاہ کے پاس ملازم ہوگا اور شراب پلائے گا تو اس وقت بادشاہ سے میری سفارش کرنا کہ میں بے گناہ ہوں مجھے رہا کر دے ۔ جب وہ شخص گیا تو یوسف نے جو کچھ کہا تھا سب بھول گیا حضرت یوسف علیہ السلام بڑی مدت تک جیل ہی میں ناکردہ گناہ کی سزا کاٹتے رہے ، وہ بے یار و مددگار تھے رہائی کی کوئی امید ہی نہیں تھی، وہ جیل میں قدیوں کو دین کی راہ دکھاتے رہے اللہ کی یاد تو ان کا معمول تھا۔
ایک روز بادشاہ نے اپنے مصاحبوں اور وزیروں سے کہا کہ میں نے ایک ایسا خواب دیکھا ہے اگر تم میں سے کوئی تعبیر بتا سکتا ہے تو مجھ سے کہے۔ مصاحبوں نے بادشاہ سے کہا کہ آپ اپنا خواب بیان کریں، ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے کوئی تعبیر بتادےبادشاہ نے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ سات دہلی گائیں کھا رہی تھیں سات موٹی گائیں ، اناج کی سات بالیں ہری اور تازہ تھیں، اور سات سوکھی بالیں تھیں، لیکن سوکھی بالیں ہری بالیں کھا رہی تھیں ، دہلی گائیں کس طرح موٹی گائیں کھا سکتی ہیں ہری بالیوں کو سوکھی بالیاں کھا رہی تھیں اس کا کیا مطلب ہے؟
مصاحبوں نے کہا کہ اس خواب کی تعبیر بتانے سے قاصر ہیں، یہ باتیں بادشاہ کو شراب پلانے والے تک پہنچ گئیں ۔ اس نے سنا تو حضرت یوسف علیہ السلام کی باتیں یاد آگئیں۔ اس نے بادشاہ کو حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں سب کچھ بتا دیا اور کہا کہ اس خواب کی تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام ہی بتا سکتے ہیں۔ جیل میں ہیں سزا کاٹ رہے ہیں۔
بادشاہ کو شراب پلانے والے خادم نے کہا کہ آپ مجھے یوسف کے پاس بھیج دیجئے میں اس سے تعبیر معلوم کر کے آؤں گا بادشاہ نے اسے اجازت دے دی ۔ وہ یوسف کے پاس پہنچا اس نے بادشاہ کے خواب کا ذکر کیا ۔ سات گائیں دبلی ہیں وہ سات موٹی گائیں کھا رہی ہیں، ساتھ سوکھی بالیں ، ہری اور تازہ بالیں کھا رہی ہیں ، اے یوسف اس خواب کی تعبیر بتا دو تم نیک اور سچے ہو تم جو کچھ بتاؤ گے میں بادشاہ سے جا کر کہوں گا ۔ ہو سکتا ہے، باد شماہ تم پر رحم کرے اور قید خانے سے نجات دلائے۔حضرت یوسف علیہ السلام نے کہاملک میں سات برس تک خوب اناج اور پھل ہوگا آنے والے سات سال اچھے نہیں ہوں گے۔ اناج پیدا نہیں ہوگا، قحط پڑ جائے گا ابھی سات سال کے اندر جو اناج ہو گا کھانے کے ساتھ ساتھ بچا کر بھی رکھنا ہوگا، بچا ہوا اناج قحط کے زمانے میں کام آئے گا اناج بچا کر نہ رکھا جائے تو لوگ بھوک سے مریں گے اور یہ اناج بالیوں میں ہی رکھنا ہوگا تا کہ خراب نہ ہو۔ چنانچہ پہلے سات سال اچھے رہیں گے ، اس دوران یہ فائدہ ہوگا کہ خوب بارش ہو گی زمین زرخیز ہو گی اناج بہت پیدا ہو گا۔
جب خادم نے یوسف کی کہی ہوئی باتیں بادشاہ کو بتادیں تو بادشاہ سوچ میں پڑ گیا اور کہا۔ یوسف کو میں قید سے آزاد کرنا چاہتا ہوں۔ یوسف کو میرے پاس لاؤ تا کہ میں مزید باتیں معلوم کر سکوں، یوسف ایک ذہین اور نیک شخص معلوم ہوتا ہے۔ جب خادم یوسف کے یا م یوسف کے پاس پہنچا اور بادشاہ کا پیغام دیا تو یوسف نے خادم سے کہا۔ میں انصاف چاہتا ہوں آخر مجھے قید میں کس جرم کی پاداش میں ڈالا گیا اور زلیخا کے بارے میں بتایا کہ اس نے اپنے قریب بلانے کی بہت کوشش کی بہت پھیلایا ، بہت دھمکایا لیکن میں نے اس کے جال میں پھنے سے انکار کر دیا اللہ نے مجھے گناہ سے بچایا ، زلیخا کے پاس آنے والی عورتوں نے مجھے دیکھتے ہی اپنی اپنی انگلیاں کاٹ لیں یہ باتیں عیب کہا ہیں بتانے کا سبب صرف یہی ہے کہ عزیز مصر جان لے کہ میں بےگناہ اور پاک ہوں میں نے کوئی خیانت نہیں کی، اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا میں کسی کو رسوا کرنا بھی نہیں چاہتا میں اللہ کے حکم کے مطابق زندگی گزار رہا ہوں ۔ شراب پلانے والے خادم نے یوسف کی زبانی باتیں سنیں ، جا کر بادشاہ کو تمام واقعہ سنایا۔
بادشاہ نے زلیخا اور دوسری عورتوں کو بلایا تا کہ اصل سبب معلوم ہو جائے زلیخا نے بادشاہ سے سچ سچ باتیں بتا دیں اور کہا کہ میں نے یوسف کو دعوت گناہ دینے کی بہت کوشش کی مگر یوسف مجھ سے بچ کر نکل گیا، مجھے یقین ہو گیا کہ وہ نیک اور پاک باز ہے۔ جب بادشاہ نے دوسری عورتوں سے انگلیوں کے کاٹنے کا سبب معلوم کیا تو عورتوں نے بتایا کہ واللہ ہم نے آج تک ایسا خوبرو جوان نہیں دیکھا، اسے دیکھتے ہی ہم سب کے ہوش اڑ گئے اور بے خودی میں اپنی اپنی انگلیاں کاٹ لیں۔ یوسف انسان نہیں فرشتہ ہے، یوسف نیک اور بے گناہ ہے۔ بادشاہ نے زلیخا اور دوسری عورتوں سے انگلیوں کے کاٹنے کا سبب اور سچائی معلوم کرنے کے بعد حکم دیا کہ یوسف کو میرے پاس لاؤ میں اسے اپنے خاص مصاحبوں میں جگہ دوں گا بعض کاموں میں اپنا مددگار بناؤں گا تا کہ حکومت کے کاموں میں آسانی پیدا ہو۔ چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام بادشاہ کے پاس گئے بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ السلام سے باتیں کیں اور کہا کہ میں تمام واقعات سے واقف ہو چکا ہوں میں آپ کہ خاص مرتبہ دوں گا، آپ عزت والے ہیں میں آپ کو اپنے پاس رکھوں گا
مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے، آپ نے خواب کی تعبیر بتائی کہ پہلے سات سال میں خوب پیداوار ہو گی بعد کے سات سالوں میں قحط پڑے گا، میں چاہتا ہوں نالہ کا انتظام آپ کے ہاتھ میں دے دوں۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے منظور کر لیا اور کہا کہ میں اس کام کو نجوبی انجام دوں گا تا کہ ملک میں رعا یا خوش رہے اور اناج کی کمی نہ ہو حضرت یوسف علیہ السلام نے خوراک کا محکمہ سنبھال لیا سات سال میں جو غلہ پیدا ہو اتھا اسے بچا کر رکھا جب دوسرے سات برسوں میں پیداوار نہ ہوئی تو رکھے ہوئے غلے کے ذخیرہ سے لوگوں کو اناج فراہم کیا، ملک قحط سے بچ گیا۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر کی جگہ لے لی اور حکومت کرنے لگے۔ ملک شام کے علاقہ کنعان میں غلہ نہ ملنے کے سبب قحط پڑ گیا کنعان کے رہنے والے بھی پریشان تھے وہ غلہ لینے کے لئے مصر پہنچنے لگے۔ حضرت يعقوب علیہ السلام کے گیارہ بٹیوں میں سے دس بیٹے بھی غلہ لینے کے لئے مصر پہنچے اور حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات کی اپنا تعارف کراتے ہوئے باپ کا نام یعقوب علیہ السلام اور جو بھائی نہ آسکا اس کا نام بن یامین بتایا ، ان کے کہنے پر حضرت یوسف علیہ السلام سمجھ گئے کہ یہ میرے بھائی ہیں جنہوں نے مجھے کنو میں میں دھکیل دیا تھا آپ دل ہی دل میں اپنے باپ اور بھائی بن یامین کو یاد کرنے لگے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے ان سے کہا کہ تم دس آدمی آئے ہو میں صرف تم لوگوں کا حصہ ہی دوں گا یہاں بھی غلہ کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا باپ آنے کے قابل نہیں وہ بوڑھا ہے اور بھائی بن یامین کا حصہ بھی دے دیجئے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ باپ آنے کے قابل نہیں تو کوئی بات نہیں، مگر اب کی بار اپنے بھائی بن یامین کو بھی ساتھ لیتے آنا جب ہی میں غلہ دوں گا اور باپ کا حصہ بھی دوں گا۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں غلہ دے دیا ان سے قیمت کے طور پر رقم بھی وصول کی۔ جب وہ لوگ غلہ لے جانے کے لئے ذخیرہ کرنے لگے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے غلاموں کے ذریعہ غلہ کے ذخیرے میں وہ رقم بھی رکھوادی جو غلہ کے عوض ان سے لی تھی ، قافلہ غلہ لے کر روانہ ہو گیا۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے غلہ لے کر گھر پہنچے غلہ حاصل کرنے کے دوران جوان پر بیتی تھی باپ کو سنا دی اور اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ عزیز مصر کے حکم کے مطابق سب کے حصہ کا غلہ اس شرط پر ملے گا جب ہم بھائی بن یامین کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں باپ نے کہا تم لوگ یوسف کولے گئے لیکن واپس نہیں لائے میں اس کی یاد میں اب تک آنسو بہا رہا ہوں روتے روتے میری بینائی بھی جاتی رہی یوسف کی جدائی کا زخم میرے سینے میں ہے وہ اب تک سوکھا نہیں ہے اب تم یہ کہہ رہے ہو کہ میں اپنے بیٹے بن یامین کو تمہارے ساتھ کردوں یہ مجھ سے نہیں ہو ساتھ کردوں یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا اب تم پر بھروسہ نہیں کر کتاب اصل حفاظت کرنے والا اللہ ہی ہے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹیوں نے لائے ہوئے غلہ کا ذخیرہ کھولا تو اس میں وہ رقم بھی مل گئی جو غلہ کے عوض دی تھی رقم دیکھ کر پھولے نہ سمائے ۔ باپ سے کہا کہ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ جو رتم خریداری میں دی تھی وہ مل گئی غلہ تو مفت ہاتھ آیا۔ آپ بن یامین کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے ہم غلہ لے کر آئیں گے ورنہ ہمیں اناج کا ایک دانہ بھی نہیں ملے گا۔ عزیز مصر کے حکم کی تعمیل بھی ضروری ہے ہم سب بن یامین کی حفاظت کریں گے باپ نے کہا مجھے تم لوگوں پر یقین نہیں آتا تمہارے ہی کہنے پر میں یوسف کو کھو چکا ہوں اب تم لوگ بن یامین کے پیچھے پڑ گئے۔
بیٹوں نے کہا ہم یقین دلاتے ہیں کہ اپنی جان سے بھی زیادہ بن یامین کی حفاظت کریں گے باپ نے ان کی باتیں سن کر کہا اگر تم لوگ قسم کھا کر کہو کہ بن یامین کو بحفاظت لاؤ گے یہ بات اور ہے کہ تم خود مصائب میں گھر جاؤ۔ بیٹوں نے قسم کھا کر کہا کہ ہم ضرور بن یامین کو ساتھ لیتے آئیں گے پھر حضرت یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں سے کہا جو کچھ کرتا ہے اللہ ہی کرتا ہے میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں مجھ میں کوئی طاقت نہیں انہوں نے بیٹوں کو نصیحت کی کہ تم سب ایک ہی دروازہ سے داخل مت ہونا بلکہ علیحدہ علیحدہ دروازوں سے جانا صرف اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا سب نے باپ کے حکم کی تعمیل کی۔
چنانچہ سب بھائی مصر پہنچے حضرت یوسف علیہ السلام سے سب بھائیوں نے ملاقات کی اور کہا کہ اس سفر میں ہم لوگ بن یامین کو بھی ساتھ لاتے ہیں ، حضرت یوسف علیہ السلام نے بن یامین کو خاموشی سے بلایا اور کہا کہ میں تمہارا بھائی ہوں ، سوتیلے بھائیوں نے جو سلوک کئے اس سے مملین نہ ہونا ۔ بن یامین نے ان باتوں کو راز میں رکھا بھائیوں کو نہیں بتایا ۔ یوسف نے سب کو غلہ دیا ، بن یامین کے حصہ میں جو غلہ آیا اس غلہ میں بادشاہ کا ایک پیالہ غلاموں کے ذریعہ رکھوا دیا اور سب کو روانہ کیا جب قافلہ کچھ دور نکلا تو حضرت یوسف علیہ السلام کے حکم کے مطابق غلاموں نے زور زور سے قافلہ والوں کو آواز دیتے ہوئے کہا کہ تم سب چور ہو، تم لوگوں نے بادشاہ کا پیالہ چرایا ہے۔
ان لوگوں نے کہا کہ ہم چور نہیں ہیں ہم نے کوئی چیز چوری نہیں کی ہے ہم سب قسم کھانے کے لئے تیار ہیں، عزیز مصر کے آدمیوں نے کہا۔ ”ہم تلاشی لیں گے، جس کے سامان میں پیالہ رکھا ہوا ملے ہم سزا کے طور پر اسے روک لیں گے ہمارے یہاں کا یہ دستور ہے۔ سب نے حامی بھر لی، اور کہا ایسا ہی کریں آپ تلاشی لیں چنانچہ عزیز مصر کے آدمی نے تلاشی لی تو بن یامین کے سامان میں پیالہ رکھا ہوا ملا۔ عزیز مصر کے آدمیوں نے کہا کہ یہی چور ہے ہم اسے جانے نہیں دیں گے آپ لوگوں کو جانے کی اجازت ہے۔
بغیر بن یامین کے ان میں سے کوئی بھی گھر جانے کے لئے راضی نہ ہوا عزیز مصر سے التجا کی کہ ہم سب اپنے باپ سے وعدہ کر کے آئے ہیں کہ بن یامین کو ساتھ لے کر آئیں گے ہمارا باپ بہت بوڑھا ہے وہ صدمہ برداشت نہ کر سکے گا ہم باپ کو کیا منہ دکھا ئیں گے۔ بن یامین کے بدلے ہم میں سے کوئی بھی رکنے کے لئے تیار ہے۔ بن یامین کے قصور کی سزا ہم بھگتیں گے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا ایسا کیوں کر ممکن ہے جرم کوئی اور کرے سزا کسی اور کو ملے سزا تو صرف اسے ہی ملے گی جو قصور وار ہے اگر ہم بے گناہ کو پکڑیں گے تو ہم ظالموں میں شمار ہوں گے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی یہ باتیں سن کر سب بھائی بہت پریشان ہوئے آپس میں صلاح مشورہ کرنے لگے ان میں سے ایک بھائی نے کہا کہ ہم اپنے باپ سے وعدہ کر کے آئے ہیں اگر ہم سب بن یامین کو چھوڑ کر چلے گئے تو معلوم نہیں ہمارا کیا حشر ہوگا ہم سب جانتے ہیں کہ ہم نے یوسف کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔ ان میں سے بڑے بھائی نے کہا کہ میں اس وقت تک واپس نہیں جاؤں گا جب تک کہ بن یامین کو اپنے ساتھ نہ لے لوں یا ہمارے باپ ہمیں حکم نہ دیں یا اللہ تعالی کوئی آسانی پیدا کر دے تم لوگ جاؤ اور باپ سے سارا ماجرا بیان کرو اور کہو کہ ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ بن یامین چور نکلا غیب کا حال . اللہ ہی جانتا ہے یہ لوگ واپس لوٹ گئے اور باپ سے چوری کا واقعہ بیان کیا اور بن یامین کو چور ٹھہرایا ان کی باتیں سن کر باپ نے کہا کہ تم لوگ جو کچھ کہہ رہے ہو یہ بناوٹی بات معلوم ہوتی ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے میں صبر کر رہا
ہوں، میں پہلے ہی یوسف کے غم میں مبتلا تھا اب بن یامین کے غم نے تو مجھے اور بھی بے حال کر دیا ہے۔
باپ نے اپنے بیٹوں سے کہا، جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اللہ کی ذات سے نا امید نہ ہونا نا امیدی کفر ہے، باپ کے کہنے پر پھر یہ لوگ مصر پہنچے اور عزیز مصر سے ملاقات کی اور کہا اے عزیز مصر ہم سب بہت پریشان ہیں باپ نا بینا ہو چکے ہیں جو کچھ ہمارے پاس پونجی تھی وہ ہم لے آئے ہیں ہمیں غلہ دے دیجئے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے گھر والوں کی پریشانی سنی تو بے چین ہو گئے اور کہا تم لوگوں نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا ، یہ سب تمہاری نادانی اور جہالت کے سبب ہوا۔
بھائیوں نے یہ سنا تو چونک پڑے اور کہا کہ کیا آپ ہی یوسف ہیں؟ انہوں نے جواب دیا تم ٹھیک کہتے ہو میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے اللہ نے مجھے مرتبہ دیا اور مجھ پر رحم کیا وہ سب سے بڑا رحم والا ہے جو مصیبت میں صبر کرتا ہے، اللہ اس کا ساتھ دیتا ہے۔
بھائیوں نے کہا ہم لوگوں سے بہت بڑی علم اسے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے اللہ نے آپ کو بہت بڑا مرتبہ دیا ہے ہم اس کے لئے شرمندہ ہیں ۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے جواب دیا ” میں تم سب کو معاف کرتا ہوں میں بدلہ نہیں لیتا، اللہ بڑا رحیم اور کریم ہے اللہ تعالیٰ ہی سب سے بڑا معاف کرنے والا ہے۔
آپ نے فرمایا : میرا جامہ لے جاؤ باپ سے میرا سلام کہنا، اور میرا جامہ باپ کے سر پر رکھ دینا، اللہ ان کی بینائی واپس لوٹا دے گا بادشاہ نے سلطنت کے انتظام کے لئے مجھے پورا پورا اختیار دیا ہے بادشاہ کے بعد میں ہی حاکم ہوں، میں حکم دیتا ہوں کہ تم سب چلے آؤ اور میرے ساتھ رہو۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے مصر سے روانہ ہو گئے یہ سفر طے کر رہے تھے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے لوگوں سے کہا کہ مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے، مجھے یقین ہے کہ میرا یوسف مجھے مل جائے گا تم لوگ یہ سمجھتے ہو گے کہ میں بڑھاپے کی وجہ سے بہکی بہکی باتیں کر رہا ہوں۔ لوگوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کی باتیں سن کر کہا یہ سب آپ کا وہم ہے آپ کے دل میں یوسف بسا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کے دل میں خیالات پیدا ہور ہے ہیں، لوگوں نے حضرت یعقوب کی باتوں پر توجہ نہیں دی جب قافلہ نزدیک پہنچا تو آپ نے فرمایا، اب مجھے خوش خبری ملنے والی ہے۔
جب یعقوب کے بیٹے گھر پہنچے تو یوسف کا دیا ہوا جامہ باپ کے سر پر ڈالا تو آنکھیں روشن ہو گئیں، حضرت یعقوب اپنی آنکھوں سے سب کو دیکھنے لگے ۔ بیٹوں نے یوسف کے بارے میں تمام باتیں باپ کو بتلا دیں باپ خوش ہوئے اور کہا کہ میں نہ کہتا تھا کہ یوسف مجھے مل جائے گا۔ اللہ نے ان باتوں کا علم مجھے دیا ہے جو تم نہیں جانتے ہو۔ بیٹوں نے باپ سے کہا، ابا جان ہم یہ ہے گناہوں کو معاف کر دیجئے ہم لوگوں سے خطا ہوگئی ہے۔
حضرت یعقوب نے تسلی دیتے ہوئے کہا اے میرے بیٹو میں اپنے رب سے تمہارے گناہ بخشواؤں گا وہ سب سے بڑا بخشنے والا ہے۔“ حضرت یعقوب اپنے بیٹوں کے ہمراہ مصر پہنچے ، حضرت یوسف نے اپنے گھر والوں، کا استقبال کیا، اپنے ماں باپ کو عزت کے ساتھ اپنے بازو میں تخت پر بٹھایا، حضرت یوسف مصر کے حکمران تھے سب بھائی یوسف کے سامنے جھک گئے ، حضرت یوسف نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ میں نے جو خواب دیکھا تھا اللہ نے سچ کر دکھایا مجھے قید خانے سے نکالا ، مجھے حکمرانی دی یہ اللہ کا سب سے بڑا احسان ہے شیطان نے بھائیوں میں پھوٹ پیدا کر دی تھی دلوں میں بغض و عناد پیدا کر دیا تھا لیکن اللہ نے ہم سب پر رحم کیا ، ہم سب مل گئے ۔
حضرت یوسف نے اللہ سے دعا کی اور فرمایا ” میرے پروردگار تو نے وہ باتیں مجھے سکھائیں جو میں نہیں جانتا تھا اے زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے تو ہی سب سے بڑا کارساز ہے آپ نے مجھ کو سلطنت کا بڑا حصہ دیا یعنی مجھے پورا اختیار دے دیا، مجھ کو خوابوں کی تعبیر کا علم دیا، اے میرے پروردگار آخر میں بھی مجھ کو پوری فرمانبرداری کی حالت میں دنیا ہے اٹھا لیجئے اور مجھے خاص نیک بندوں میں شامل کر لیجئے ۔
******
Comments
Post a Comment