حضور کی پیاری زندگی کے کچھ یادگار لمحات

محسن انسانیت و فخر رسل حضرت محمد الله

ہمارے پیارے نبی حضور یہ ملک عرب میں پیدا ہوئے اسی سرزمین پر پہلے بھی انبیاء کرام مبعوث ہوتے رہے ہر نبی نے اپنے زمانے اور حالات کے مطابق شریعت کی باتیں بتائیں لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا۔ نیکی کی دعوت دی، برائی سے روکا ، آخر میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفے مبعوث ہوئے آپ نے بھی وہی تعلیم دی جو سابقہ نبیوں نے دی۔

ہمارے پیارے نبی حضور ۱۲ ربیع الاول بروز پیر صبح صادق کے وقت مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے ۔ بچہ کا نام محمد رکھا گیا۔ ایسا نام عرب میں کسی نے نہیں رکھا، آپ ﷺ جس زمانہ میں پیدا ہوئے اسے عام الفیل کہا جاتا ہے۔ فیل کے معنی ہاتھی کے ہیں۔ یمن کا بادشاہ ابرہہ کعبہ پر حملہ کرنے کی غرض سے آیا تھا فوج کے سپاہی ہاتھیوں پر سوار تھے۔ ابرہہ کا مقابلہ کسی نے نہیں کیا۔ خدا کا کرشمہ دیکھئے کہ اللہ نے ابرہہ کو پسپا کر دیا اس کے بہت سے سپاہی ہلاک ہوئے۔

عرب میں دستور تھا کہ بچہ پیدا ہوتے ہی دایہ کے حوالے کر دیا جاتا۔ اور وہ اپنے گاؤں لے جا کر اپنی نگرانی میں پرورش کرتی ۔ بچہ کھلی ہوا میں پرورش پاتا۔ تندرست و توانا رہتا ، صاف ستھری زبان سیکھتا، زبان میں فصاحت و بلاغت ہوتی۔ چنانچہ اسی روایتی دستور کے مطابق آپ ﷺ کو حلیمہ سعدیہ کے حوالے کیا گیا۔ جب آپ ﷺ کی عمر چھ سال کی ہوئی تو  حلیمہ سعدیہ آپ ﷺ کو حضرت آمنہ کے پاس لے آئی۔

کچھ عرصہ بعد حضرت آمنہ کا انتقال ہو گیا ۔ ماں کی شفقت سے محروم ہونے کے بعد آپ ﷺ کے دادا عبد المطلب نے پرورش کرنے کی ذمہ داری سنبھال لی ۔ عبد المطلب آپ ﷺ کو پیار و محبت کے ساتھ پرورش کرتے رہے ۔ دو سال کے بعد ان کی وفات ہوگئی تو آپ ﷺ کے چاچا ابو طالب نے آپ ﷺ کو لے لیا۔ ہر طرح سے آپ ﷺ کا خیال رکھا۔ اور آپ ﷺ کی نگرانی کرتے رہے۔ جب آپ ﷺ کچھ سمجھدار ہوئے تو تجارتی سفر میں ابو طالب کے ساتھ جاتے تھے۔ آپ ﷺ بکریاں بھی چراتے تھے، اپنے چچا کے گلوں کی رکھوالی بھی کرتے اور چرانے کے لئے جنگل لے جاتے ۔

آپ ﷺ نے اپنے بچا ابو طالب کے ہمراہ کئی تجارتی سفر کئے ۔ خریدو فروخت کے طریقے سیکھے۔ سفر کے دوران بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی، ان سے بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ آپ ﷺ اکثر ملک شام جایا کرتے تھے۔

 مکہ میں ایک خاتون رہتی تھیں نام خدیجہ تھا۔ عورت تو تھیں لیکن صلاحیت تھیں وہ بھی تجارت کرتی تھیں اور اپنا مال ملک شام بھیجتی تھیں۔

حضرت خدیجہ ایک کامیاب تاجر ہیں اور آپ کی آپ ﷺ کے بارے میں اکثر سنا کرتی تھیں کہ آپ کی اعلیٰ صفات اور حسن اخلاق سے بھی واقف تھیں۔ لوگوں کی زبان سے یہ کہتے سنا کہ آپ ﷺ صادق اور امین ہیں، لوگوں پر رحم کرتے ہیں۔

 حضرت خدیجہ دل میں کہنے لگیں کہ ایسے راست باز اور بچے آدمی سے ملنا چاہئے شاید وہ کاروبار میں مدد کر سکیں ۔ انہوں نے آپ ﷺ کو پیغام بھیجا۔ حضور اکرم ، بی بی خدیجہ کے گھر پہنچے۔ بی بی خدیجہ نے حضور اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ یہ تجارتی مال لے جا کر فروخت کریں۔

مجھے آپ جیسے شخص کی ضرورت ہے

حضور ﷺ نے اس پیش کش کو منظور کر لیا۔ چنانچہ تجارت کا مال لے کر شام جانے کے لئے تیار ہو گئے ۔ حضرت خدیجہ نے اپنا غلام میسرہ آپ ﷺ کی خدمت کے لئے ہمراہ کر دیا قافلہ روانہ ہوا۔ آپ ﷺ ملک شام کی طرف جارہے تھے تو راستہ میں بصرہ کے قریب ایک یہودی عالم ربی رہتا آپ ﷺ اس کے قریب سے گزرے کچھ دیرستانے کے لئے ایک درخت کے سایہ میں بیٹھ گئے۔ ربی نے آپ ﷺ کو خوب غور سے دیکھنا شروع کیا اور میسرہ کو اشارے سے اپنے پاس بلا کر پوچھا تھا۔ آپ ﷺ الله یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟“ اس نے کہا اس شخص کا تعلق قبیلہ قریش سے ہے۔

ربی نے کہا: خدا کی قسم ! اس درخت کے سایہ تلے سوائے نبی کے کوئی نہیں بیٹھتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب اس شخص کو نبورت ملتی ۔“ شام کے سفر سے واپس لوٹے، مال فروخت کرنے کے بعد جو رقم حاصل کی آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ کے حوالے کی۔ حضرت خدیجہ نے میسرہ سے سفر میں پیش آنے والے حالات دریافت کئے اور آپ ﷺ کے بارے میں بھی پوچھا۔

 میسرہ کے سفر کے دوران پیش آنے والے واقعات اور آپ ﷺ کے صالح کردار کے بارے میں سب کچھ تفصیل سے بتا دیا۔ میسرہ نے جو باتیں بتائیں اس سے آپ بہت متاثر ہوئیں اور حضور ﷺ کی زوجیت میں آنے کے لئے آپ ﷺ سے نکاح کی درخواست کی۔ 

 آنحضرت ﷺ نے پیش کش منظور کر لی۔ آپ ﷺ کی عمر ۲۵ سال تھی اور حضرت خدیجہ کی عمر ۴۰ سال تھی ۔ ۱۵ سال کا فرق تھا، نکاح ہو گیا تقریب میں حضرت حمزہ، ابو طالب ، حضرت ابو بکر صدیق اور برادران قریش شریک ہوئے ۔ کے حضور نے حق مہر میں  اونٹ دیئے۔

شادی کے بعد حضور اکرم کی حالت بہتر ہو گئی آپ  غریبوں کا خیال رکھتے تھے۔ بے کسوں کی مدد فرماتے تھے، مصیبت زدہ لوگوں کے کام آتے تھے۔ قریش آپ ﷺ کی سچائی اور حسن اخلاق کے قائل ہو گئے ہر شخص آپ ﷺ کی تعریف کرتا تھا۔

انجمن حلف الفضول

 یوں تو سارے عرب میں گمراہی پھیلی ہوئی تھی۔ ہر طرف بدنظمی اور انتشار کا ماحول پایا جاتا تھا۔ کمزوروں کا جینا دو بھر ہو چکا تھا انصاف نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ مکہ کی حدود میں بھی کچھ اسی قسم کی حالت پائی جاتی تھی باہر سے کوئی تاجر مال لے کر آتا تو لوٹ لیا جاتا ۔ یا مال خرید کر رقم نہیں دیتا، کوئی کسی کا حق دیا بیٹھتا۔ سرکار دو عالم ﷺ کو ان خرابیوں کے باعث بہت دکھ پہنچتا تھا۔ مکہ کے سنجیدہ اور انصاف پسند لوگوں نے حلف الفضول کے نام سے ایک انجمن کی بنیاد رکھی ، جس کا مقصد یہ تھا کہ ہر اس مظلوم کی حمایت کی جائے جو شہر مکہ کے حدود میں پایا جائے خواہ وہ وہیں کا باشندہ ہو یا اجنبی ۔ رسول الله ﷺ نے اس عمل کو بہت پسند فرمایا۔

خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر

خانہ کعبہ کی از سرنو تعمیریہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ آج سے چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی۔ تعمیر میں حضرت اسماعیل نے بھی حصہ لیا۔ خانہ کعبہ جس حالت میں آج نظر آ رہا ہے، پائیداری اور خوبصورتی کے اعتبار سے قدیم کعبہ سے بہت فرق ہے۔ صدیاں گزرگئیں آج بھی اللہ کا یہ گھر قائم ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ خراب موسمی حالات اور بارشوں کی وجہ سے عمارت بوسیدہ ہو جاتی تھی تو مرمت کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی۔ جب سرکار دو عالم کی عمر مبارک ۳۵ سال تھی تو ایک مرتبہ پھر ضرورت پیش آئی تو تعمیر کا کام شروع ہوا ۔ کام تو مکمل ہو چکا ، صرف سنگ اسود رکھنے کی باری آئی، سنگ اسود رکھنا ہر شخص کے لئے ایک اعلیٰ اعزاز تھا۔ سرداروں میں سے ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ یہ سعادت اس کے حصے میں آئے اس کے لئے لڑائی جھگڑے کی نوبت آچکی تھی۔ بعد میں اتفاق رائے سے یہ بات منظور ہوئی کہ اگلے روز صبح سویرے سب سے پہلے جو شخص صحن کعبہ میں داخل ہوگا وہ جو فیصلہ کرے گا ، ہم مان لیں گے۔

دوسری صبح سرکار دو عالم کو صحن کعبہ کی طرف آتے ہوئے دیکھ کر سب نے ایک آواز ہو کر کہا۔ صادق آگئے ، امین آگئے ۔ سرداروں نے فیصلہ کرنے کا اختیار آپ ﷺ کو دیا آپ ﷺ ثالث مقرر ہوئے آپ ﷺ نے ایک چادر منگوائی درمیان میں آپ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے سنگ اسود رکھا اور اس کے کونے سرداروں سے پکڑوا کر حجر اسود کو خانہ کعبہ تک لے گئے اس کی جگہ پر رکھ دیا آپ ﷺ کے اس منصفانہ فیصلے کی سب نے تعریف کی۔

   رسول اکرم ﷺ کا ہر لمحہ اور ہر وقت عبادت الہی میں گزرتا تھا آپ ہر کام اللہ کی مرضی کے مطابق کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ کسی صحابی نےحضرت عائشہ سے دریافت کیا کہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں کچھ  فرمائیے حضرت عائشہ نے فرمایا " آپ ﷺ کی زبان پر ہر لمحہ اللہ کا ذکر رہتا تھا۔

 مکہ معظمہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک پہاڑ ہے یہاں ایک غار ہے یہ جگہ بالکل سنسان ہے، یہ غار حرا کے نام سے مشہور ہے ۔ اللہ کے رسول کئی کئی دن تک اس غار میں گزارتے ، اللہ کا ذکر کرتے ، اور عبادت میں مصروف رہتے ۔ آپ ﷺ ذکر الہی میں مشغول تھے کہ اچانک ایک نورانی جسم نمودار ہوا، یہ جبرئیل علیہ السلام تھے۔ فرشتے نے کہا پڑھ! آپ ﷺ نے کوئی خیال نہیں کیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی آپ ﷺ کو پوری قوت سے دبا رہا ہے پھر آواز آئی ” پڑھ ! آپ ﷺ نے فرمایا میں کیا پڑھوں؟

جواب ملا 

پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے (کائنات ) کو پیدا کیا اور انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھئے آپ کا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی انسان کو وہ علم دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ یہ پہلی وحی تھی جو آپ پر نازل ہوئی ۔ آپ یہ منصب رسالت پر فائز ہوئے۔

اللہ کے رسوں گھر تشریف لائے ۔ حضرت خدیجہ سے غار حرا میں جو کچھ ہوا آپ ﷺ نے سنا دیا حضرت خدیجہ نے جیسے ہی آپ ﷺ کی زبان  مبارک سے سنا فورا ایمان لے آئیں اور فرمایا۔

کہ پرواہ نہ کریں ۔ (الحجر۹۴)

اس آیت کے نزول کے بعد آپ ﷺ کھلے عام تبلیغ کرنے لگے اس کے بعد پھر اللہ نے حکم دیا۔ ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراتے رہے ۔ ( الا شعراء ۲۱۴)

حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے گھر میں ایک ضیافت کا اہتمام کیا اور اپنے رشتہ داروں کو مدعو کیا، کھانے کے بعد آپ ﷺ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا

میں وہ چیز لے کر آیا ہوں، جس میں دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے مہمانوں سے پوچھا ایک نیک کام ہے اس میں کون میرا ساتھ دے گا مجلس میں خاموشی چھا گئی جواب کسی سے نہ بن پڑا اچانک حضرت علیؓ اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا میں عمر میں کمسن ہوں لیکن میں آپ ﷺ کا ساتھ دوں گا حضرت علی کے کہنے پر لوگ ہنس پڑے، کچھ نے تو مذاق بھی اڑایا۔ مجلس برخاست ہو گئی ۔

ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے عزیزوں کو متوجہ کیا۔ آپ  کوہ صفا پر چڑھ گئے اور قریش کے لوگوں کو ہر ایک کا نام لے لے کر پکارنا شروع کیا جب سب جمع ہو گئے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا لوگو! اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک مسلح لشکر جمع ہے اور تم پر حملہ کرنے والا ہے کیا مجھے سچا سمجھو گے؟

لوگوں نے جواب دیا۔

 تمہیں صادق اور امین پایا ہے آپ جو کچھ کہیں گئے سچ کہیں گئے۔ آپ نے فرمایا تم کو ایک خدا کی جانب بلاتا ہوں، اور تمہارے دلوں میں جو وہم ہے میں اسے دور کرنا چاہتا ہوں میں تمہیں خبردار کر رہا ہوں کہ کفر و شرک سے باز آجاؤ ایک خدا پر ایمان لاؤ۔ ورنہ تم برباد ہو جاؤ گے تم اس دن سے ڈرو جب خدا کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا ۔

قریش آپ کی زبانی حق بات سن کر حیران رہ گئے اور باپ دادا کے دین اور بت پرستی کے خلاف آواز سن کر طیش میں آگئے آپ کے چچا ابولہب غضب ناک ہو کر کہنے لگے کیا اسی غرض سے تو نے ہم سب کو جمع کیا تو رسوا ہوگا۔

آپ نے جتنی بھی باتیں بتائیں اس پر کسی نے توجہ نہ دی جب آپ نے بتوں اور بت پرستی کے خلاف بولنا شروع کیا تو سب آپ ﷺ کے دشمن ہو گئے۔  

ایک دان رسول اکرم کعبہ میں بیٹھے ہوئے تھے کچھ فاصلے پر آپ کے مخالفین بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں شامل عقبہ بن ربیعہ بھی تھا وہ رسول اکرم کے قریب آیا اور کہا اے میرے بھائی کے بیٹے ! ہم اپنے باپ دادا کے طریقے پر ہیں تم نے ہمارے درمیان پھوٹ ڈال دی ہے، گھروں میں جھگڑے پیدا ہو گئے۔ ایک شرط پر، تمہاری خواہش پوری کرنے کےلئے تیار ہیں۔ وہ شرط یہ ہے کہ ہمارے باپ دادا کے دین کو برا نہ کہو اور ہمارے معبودوں کو برا نہ کہو۔ جو کچھ مانگو گے ہم دینے کے لئے تیار ہیں، جتنی دولت مانگو گے ہم دیں گے بادشاہ بننا پسند کرو تو بادشاہ بنائیں گے۔ ہر کام میں تمہاری مرضی ہو گی بغیر تمہاری مرضی کے کوئی کام نہیں کریں گے ۔ اس کے جواب میں آپ ﷺ نے قرآن کریم کی تلاوت کی ۔

میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں مگر مجھ پر وحی آئی ہے کہ تمہارا معبود ایک خدا ہے اس لئے اسی کی طرف رجوع کرو۔ اور اسی سے معافی مانگو اور افسوس ہے مشرکوں پر جو خیرات نہیں دیتے ، آخرت پر ایمان نہیں رکھتے البتہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا ۔ پھر آپ ﷺ نے عقبہ سے فرمایا "۔ اے عتبہ تم سن چکے ہو اب جو راستہ تمہیں بہتر ہو وہی اختیار کرو۔

  آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ جاتے اور لوگوں کو دین کی دعوت دیتے ایک مرتبہ حج کے دوران رحمت عالم ، حضرت ابو بکر صدیق کے ہمراہ معمول کے مطابق تبلیغ حق کے لئے منی تشریف لے گئے جہاں عرب کے کونے کونے سے زائرین آئے ہوئے تھے۔ دعوت توحید دیتے ہوئے ایسی مجلس میں پہنچے جو بڑی با عظمت اور باوقار کی چند معزز اور ذی و جاہت اشخاص بات چیت میں مصروف تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق نے آگے بڑھ کر سلام کیا ان سےپوچھا اے بیت اللہ کے مہمانو تم کس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہو؟

جواب ملا ہم شیبان بن تغلبہ کی اولاد ہیں ہم فارس کے پڑوسی ہیں اور کسری کے زیر اثر ہیں ۔

حضرت ابو بکر صدیق اس قبیلہ سے واقف تھے۔ ان سب کو پہچان گئے۔ حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا " یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کی اجازت دیں تو میں ان سے بات کروں ؟

حضور ﷺ نے اجازت دے دی۔ حضرت ابو بکر صدیق نے ان سے تفصیل سے گفتگو کی اور حالات سے آگاہ کیا پھر حضور ﷺ ان سے مخاطب ہوئے۔

میں تم کو اس بات کی طرف بلاتا ہوں کہ تم گواہی دو کہ سوائے اللہ کے اور کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں میں چاہتا ہوں کہ تم میرے مددگار بنوتا کہ میں اللہ کے احکامات بغیر کسی رکاوٹ پہنچا سکوں ۔

آپ ﷺ نے فرمایا قریش نے اللہ کے احکام کی کھلم کھلا مخالفت کی ہے اس کے رسول کو جھٹلایا ، غلط بات پر قائم رہے سچائی کا انکار کیا۔ اللہ بے شک تمام باتوں سے بے نیاز اور تعریف کے لائق ہے۔

ان میں سے ایک شخص جس کا نام مفروق تھا، پوچھا اور کس کس چیز کی دعوت دیتے ہو؟ اس کے جواب میں حضور اکرم ﷺ نے قرآن حکیم کی چند آیات تلاوت فرمائی جن میں حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، ماں باپ کے ساتھ احسان کرو

اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے مت قتل کرو، بے حیائی کے قریب بھی نہ بھٹکو، خواہ وہ پوشیدہ ہو یا ظاہر، جن کا خون اللہ نے حرام کیا ہے ان کو ناحق قتل مت کرو، یتیم کے مال کو ہاتھ نہ لگاؤ ، ناپ تول انصاف کے ساتھ کیا کرو۔ اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو۔

مفروق ، قرآن کریم کی آیات سن کر بول اٹھا

اے قریشی بھائی جو تم نے سنایا کتنا پیارا کلام ہے جو دل میں اترتا چلا گیا یقینا ایسا کلام زمین والوں کا نہیں ہو سکتا خدا کی قسم جو کچھ تم کہتے ہو اس میں بھلائی ہی بھلائی ہے جن لوگوں نے تمہیں جھٹلایا وہ تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے۔

رسول اللہ ﷺ اپنی قوم کو راہ راست پر لانے اور برائی سے روکنے کے لئے تبلیغ کرتے رہے ۔ کفار قریش تو پہلے ہی دشمن بن چکے تھے اور کئی بار ابو طالب کے پاس شکایت لے کر گئے تھے۔ پھر ایک مرتبہ ابو طالب کے پاس آئے اور ان سے کہااے ابو طالب آپ سن رسیدہ بزرگ ہیں، ہم سب آپ کی قدر کرتے ہیں ہم نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ آپ اپنے بھتیجے کو منع کریں وہ ہمارے معبودوں کے خلاف باتیں کرتے ہیں اب ہم برداشت نہیں کریں گے، آپ انہیں ایسا کرنے سے باز رکھیں ، یا ان پر سے دست شفقت اٹھا لیں اور ان کی مدد نہ کریں ۔

ابو طالب نے رسول اکرم ﷺ کو بلا بھیجا آپ کے رم کو بلا بھیجا آپ تشریف لائے تو ان سے کہا ” میرے بھتیجے تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے تھے تمہارے بارے میں بہت کچھ کہہ رہے تھے ذرا میری جان کا بھی خیال کرو اور اپنی جان کا بھی اور مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ میں اٹھا نہ سکوں ۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا

کوئی میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور باتیں ہاتھ میں چاند رکھ دے اور مجھ سے کہے کہ میں اس کام سے باز آجاؤں، میں ایسا نہیں کروں گا خواہ اس کے لئے میری جان چلی جائے ۔

پھر رسول اکرم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔ یہ دیکھ کر ابو طالب نے کہا۔ " جو تمہارا دل چاہے کرو اور جس طرح چاہے تبلیغ کر وہ تم کو کسی کے حوالے نہیں کروں گا۔

پھر آپ کو اللہ کی طرف سے حکم ہوا کہ خاندان والوں کے انکار سے مایوس نہ ہوں مکہ کے آس پاس بھی لوگ رہتے ہیں ان کے پاس جائیں اور دین کی دعوت دیں۔

اور اسی طرح ہم نے تم پر عربی زبان میں قرآن نازل کیا تا کہ گمراہوں کو خوف دلاؤ۔ یعنی اے پیغمبر اب آپ شہر مکہ کے آس پاس رہنے والوں کو اللہ کا پیغام پہنچائیں ۔ ( شوری )

چنانچہ پیغام ملتے ہی آپ طائف تشریف لے گئے ۔ وہاں ثقیف کےذمہ دار لوگوں سے ملاقات کی اور دین حق کی دعوت دی ۔ طائف میں بھی آپ ﷺ کے مخالفین تھے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ ﷺ وہاں دین کی باتیں بتائیں۔ انہوں نے وہاں کے اوباش اور آوارہ لڑکوں کو ورغلایا کہ بے ہودگی سے پیش آئیں چنانچہ شریر لڑکوں نے آپ ﷺ کے جسم اطہر کو مار مار کر لہو لہان کر دیا۔ آپ ﷺ کے ہمراہ حضرت زید بھی تھے انہوں نے عرض کیا که یا رسول اللہ ﷺ ان لوگوں کے لئے بد دعا کیجئے تا کہ اللہ ان پر اپنا غضب نازل کرے وہ تباہ ہو جائیں ۔

  اسی وقت ایک فرشتہ حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ آپ  حکم دیں تو میں دونوں پہاڑوں کو جو مکہ اور طائف کے درمیان ہیں ملادوں تا کہ یہ نافرمان پس کر رہ جائیں؟ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا ۔

میں ان پر لعنت کرنے کے لئے نہیں، ان پر رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ گمراہ لوگوں نے آپ ﷺ کوستایا لیکن آپ ﷺ نے ان کے لئے بد دعا نہیں دعا فرمائی۔

اے اللہ میری قوم کے لوگوں کو ہدایت دے کیوں کہ یہ نادان ہیں ۔ 

ایک مرتبہ آپ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن محیط آیا اور گردن میں چادر ڈال کر بل دینے لگا۔ جس سے آپ ﷺ گر پڑے اور ایک موقع پر اس نے اونٹوں کی اوجھڑی سجدے کی حالت میں آپ ﷺ کےدونوں شانوں کے درمیان رکھ دی اور قہقہے لگانے لگا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو خبر ہوئی تو دوڑی آئیں اور اسے ہٹایا۔

اسی طرح آپ ﷺ کے نام لیواؤں پر بھی ہر طرح کے مظالم ڈھائے جاتے، انہیں دہکتے انگاروں پر لٹا دیتے صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے ، بلکہ اس وقت تک لٹائے رکھتے جب تک کہ ان کی چربی پگھل کر انگاروں کو ٹھنڈا نہیں کر دیتی ایک اور سزا کا طریقہ یہ تھا کہ تپتی زمین پر لٹا کر چھاتی پر بھاری پتھر رکھ کر لوہا آگ میں تپا کر جسم کو داغا جاتا تھا۔

  جب کفار مکہ نے ایمان والوں کا جینا دو بھر کر دیا تو حضور ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا۔ حبشہ چلے جاؤ، وہاں کا بادشاہ انصاف پسند ہے وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا نہ ظلم پسند کرتا ہے ، اس سرزمین پر اس وقت تک رہو جب تک اللہ تمہاری مصیبت رفع کرنے کی کوئی صورت پیدا نہ کر دے۔

اللہ کے نبی ﷺ کے مشورہ پر پندرہ آدمی حبشہ پہنچ گئے ۔ یہاں تک کہ كل تعداد ۸۳ - مرد اور ۱۸ عورتوں تک پہنچ گئی ۔ کفار قریش خاموش نہ رہے، قریش نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو حبشہ سے نکلوا دیا جائے۔ چنانچہ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے ایک وفد شکایت لے کر حبشہ پہنچا اور شاہ نجاشی سے ملا۔ وفد نے شاہ سے کہا کہ باغیوں کو ہمارے حوالے کر دے تا کہ ہم انہیں سزا دے سکیں۔

شاہ نے ان سے پوچھا کہ ان کا کیا قصور ہے؟ کفار نے بتایا کہ انہوں نے باپ دادا کے مذہب کو چھوڑ کر نیا مذہب اپنایا ہے یہ سب سے بڑا جرم ہے۔ شاہ نجاشی نے مسلمانوں کو دربار میں حاضر کیا حقیقت حال تفصیل سے پوچھا۔

مسلمانوں کی طرف سے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم سب گناہوں میں مبتلا ہو چکے تھے ۔ زمین اور آسمان کے پیدا کرنے والے خدا کو چھوڑ کر بے شمار خدا بنا رکھے تھے، یعنی بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ پڑوسیوں پر ظلم کرتے تھے جو طاقتور تھے، کمزوروں پر ظلم ڑھاتے تھے اور انہیں خوف زدہ کرتے تھے ، لوٹ مار کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ہم میں ایک شخص پیدا ہوا جس کی گواہی دوست اور دشمن بھی دیتے ہیں قوم نے اس کو محمد الامین کا لقب دیا۔ اس نے ہم کو حق کی طرف بلایا توحید کا سبق سکھایا۔ اس نے ہمیں سچ بولنے پڑوسیوں اور کمزوروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کے لئے کہا۔ قتل کرنے کو جرم ٹھہرایا جھوٹ بولنے اور یتیم کا مال کھانے کے عذاب سے ڈرایا۔ نماز قائم کرنے، زکوۃ دینے کی نصیحت کی ۔ ان کی سچائی پر ہم سب ایمان لے آئے ۔ اور تمام برے کاموں کو چھوڑ دیا ، جس پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن بن گئی۔ ہماری قوم چاہتی ہے کہ ہم سیدھے راستہ پر نہ چلیں بلکہ برائی کی طرف لوٹ آئیں ۔

شاہ نجاشی نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی صداقت بھری تقریر سن کر ان کو اور ان کے ساتھیوں کو دشمن کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا اور کہااللہ تعالی کا جو کلام تمہارے پیغمبر پر نازل ہوا ہے اس کا کچھ حصہ سناؤ۔

حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے سورہ مریم کی چند آیتیں پڑھیں جن میں حضرت عیسی علیہ السلام کے پیدا ہونے اور ان کی زندگی کے واقعات کا ذکر ہے۔ ان آیتوں کو سن کر شاہ نجاشی بے حد متاثر ہوا اور روپڑا، اور کہنے لگا خدا کی قسم یہ کلام سچا ہے۔

مسلمانوں میں کچھ لوگ تو حبشہ ہجرت کر گئے ۔ رہ جانے والوں میں حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت علی تھے۔ مسلمانوں کو پکڑ کر لانے کے لئے جو وفہ حبشہ گیا تھا وہ نا کام واپس آ گیا ۔۔ اس نا کامی پر قریش بپھر گئے پھر سب نے ایک ترکیب سوچی، کیوں نہ محمد ہی کا کام تمام کر دیا جائے۔ نہ وہ زندہ رہیں گے نہ ہمارے بتوں کے خلاف تبلیغ کر سکیں گے۔ آپس می میں صلاح مشورے ہوئے یہ طے پایا کہ اس کام کے لئے ہر قبیلہ کو شعریک کیا جائے تا کہ کوئی قبیلہ کسی سے بدلہ نہ لے سکے۔

چنانچہ ایک رات منصوبہ کے تحت ہر قبیلہ سے ایک ایک آدمی کو لیا گیا صلى الله آپ ﷺ کے گھر کے چاروں طرف گھیرا ڈال کر آپ ﷺ کے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگے۔

اللہ تعالیٰ نے دشمن کے خطرنا کہ من کے خطرناک ارادہ سے آپ کی ہ سے آپ ﷺ کو آگاہ کر دیا۔ آپ ﷺ نے اپنے بستر پر حضرت علی کو لٹا دیا اور ہدایت کی کہ جن جن کی امانتیں ہیں وہ میں تمہارے حوالے کر رہا ہوں ان سب کو لوٹا دینا۔ آپ ﷺ















Comments

Popular Posts

اچھی صحت کے راز اچھی صحت کے بارے میں میں آج آپکو کچھ ٹیپس بتاتا ہوں جو آپکے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں 01.رات کو جلدی سونا. 02.رات کو سونے سے پہلے ایسا لباس استعمال کرنا جو آپکی نیند میں خلل نہ ڈالے مثال کے طور پر اکثر ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ایسا ڈریس استعمال کرتے ہیں جس سے رات کو انکی نیند میں خلل آتا ہے سکون کی نیند سو نہیں سکتے اسیطرح رات کو سونے سے پہلے کوئی چیز نہ کھائیں اس سے مراد سونے سے کم از کم تین گھنٹے پہلے کوئی چیز کھائیں جو سونے تک آپ کے جسم پے بوجھ نہ رہے بلکہ سونے کے ٹائم تک آپ اسے ڈائی جیسٹ کر لیں 03.سونے سے پہلے پانی کا استعمال کم کرنا تا کہ رات کو سوتے ہوئے آپکی نیند میں خلل نہ آئے کیوں کہ اچھی صحت کا راز اچھی نیند ہے نیند پوری نہ ہو یا بندہ سوتے وقت اگر آرام دہ اپنے آپکو محسوس نہ کرے تو صحت کی خرابی کا باعث بنتا ہے صبح جلدی اٹھنا صحت کے لیے بہت اچھا ہے کیوں کہ صبح کی تازہ ہوا انسان کی زندگی میں مثبت کردار ادا کرتی ہے اس لیے اس بات کا باخوبی آپکو پتا ہونا چاہیے پریشانیوں کو اپنے سے دور رکھنا انسان کے بس میں ہے کہ وہ اپنے آپکو کیسے مینج کرتا ہے اگر تو ہر وقت انسان غصے میں رہے تو بھی اسکی صحت پے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اگر حالات سے بندہ تنگ یو تو اسے چاہیے کے اپنے حالات کو درست کرنے کے لیے ایس جگہ کا انتخاب کرے جہاں اسے ذہنی اور جسمانی سکون ہو کیوں کہ یہ صحت پہ ڈائریکٹ اثر ڈالتا ہے اچھی غذائیں استعمال کرنا سبزیوں کا استعمال زیادہ کرنا کوشش کر کے قدرتی اجزا کو زیادہ ترجیع دینا صاف پانی کا استعمال کرنا تازہ ہوا کے اندر اپنے آپکو زیادہ لے کے جانا آلودگی والے ماحول سے اپنے آپکو بچانا یہ ساری چیزیں اچھی صحت کے لیے کارآمد ثابت ہوتی ہیں