حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قصہ

حضرت یحییٰ علیہ السلام

حضرت یحییٰ علیہ السلام ایک جلیل القدر پیغمبر تھے، آپ حضرت زکریا علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ حضرت زکریا علیہ السلام میں جو عادتیں تھیں وہی عادتیں آپ کے اندر بھی تھیں۔ حضرت زکریا علیہ السلام بہت عبادت گزار پیغمبر تھے، حضرت یحییٰ علیہ السلام بھی اسی طرح اللہ کی عبادت کرتے تھے اور ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے اللہ نے جو حکم دیا اس پر پوری طرح عمل کرتے تھے۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا واقعہ سمجھنے کے لئے حضرت زکریا علیہ السلام کے بارے میں بھی جاننا ضروری ہے اس لئے ہم زکریا کا حال مختصر طور پر بیان کریں گے۔

حضرت زکریا علیہ السلام کے کوئی اولاد نہیں ہوئی، اب تو وہ بہت زیادہ بوڑھے ہو چکے تھے بڑھاپے کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکے تھے لیکن اولاد کی خواہش دل ہی دل میں مچل رہی تھی اللہ کی ذات سے وہ مایوس نہیں ہوئے کیونکہ اللہ ہر شے پر قادر ہے وہ سب کچھ کر سکتا ہے اس کے کام ایسے ہیں کہ وہ انسان کے وہم و گمان میں نہیں آتے اس لئے وہ اللہ سے رات و دن دعا کرتے تھے۔ آخر اللہ نے ان کی سن لی ان کی دعا قبول ہوئی انہیں بشارت ہوئی که مایوس نہ ہوں بیٹا ہو گا اس کا نام یحییٰ رکھنا۔

کسی بھی مایوس انسان کے لئے اس سے بڑی خوش خبری اور کیا ہو سکتی ہے۔ اس نے جو مانگا اسے مل رہی ہے بشارت سن کر حضرت زکریا علیہ السلام بھی خوش ہوئے بشارت ملنے کے کچھ عرصہ بعد ان کی مراد پوری ہوئی ان کے بیٹا ہوا اللہ کے حکم کے مطابق بیٹے کا نام کی رکھا۔

نئی دریافت اور معلومات کے مطابق حضرت یحییٰ علیہ السلام جس جگہ پیدا ہوئے اس پر عیسائیوں نے اپنی عبادت گاہ تعمیر کر لی۔ عیسائیوں کی عبادت گاہ کو گر جا گھر کہتے ہیں اس گرجا گھر کا نام ” چرچ سان جان بیپٹسٹ“ ہے، جہاں حضرت یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ، وہ جگہ بیت المقدس کے قریب ہے اس مقام کا نام معین کریم ہے۔

حضرت یحییٰ علیہ السلام کے حالات جاننے کے لئے بیت المقدس اور قوم بنی اسرائیل کے بارے میں بھی جاننا ضروری ہے۔

تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل مصر سے نکلنے کے بعد مارے مارے پھرتے رہے انہیں کہیں جائے پناہ نہیں مل رہے تھی آخر میں انہوں نے اپنا ٹھکا نہ بیت المقدس میں بنا لیا اور وہیں رہنے سہنے لگے لیکن اپنی اخلاقی حالت درست نہ کر سکے بلکہ بدستور گمراہی میں پڑے رہے ان کی بداخلاقی اور گمراہی کا ذکر تو ریت میں بھی آیا ہے احکام عشرہ میں ان خرابیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایس سے بچنے کی ہدایت کی گئی۔انہیں شرک کرنے سے منع کیا گیا وہ لوگ ماں باپ کی عزت نہیں کرتے تھے ، ناحق دوسروں کا خون کرتے تھے، عورتوں کی عزت نہیں کرتے تھے، چوری کرتے تھے، پڑوسیوں کو پریشان کرتے تھے، دوسروں کا مال غصب کرتے تھے، لوگوں سے اچھا برتاؤ نہیں کرتے تھے۔

قرآن کریم میں بھی بنی اسرائیل کے بارے میں اس طرح ذکر کیا گیا اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کرو، لوگوں سے اچھا برتاؤ کرو نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو لیکن بنی اسرائیل اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔

ان کی اخلاقی خرابیوں کی وجہ سے کئی بار انہیں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، انہیں راہ راست پر لانے کے لئے پیغمبر آتے رہے لیکن لوگوں نے ان کی باتوں پر کان نہیں دھرا، بلکہ ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے۔

مذکورہ حالات جاننے کے لئے اس زمانے کے سیاسی اور ملکی حالات جاننا بھی ضروری ہے۔

قدیم زمانے سے ملک عرب پر دو ملکوں کا قبضہ رہاعرب کے کچھ حصہ پر فارس کی حکمرانی تھی تو کچھ حصہ پر روم حکومت کرتا تھا۔ عرب ان دو ملکوں کے غلام تھے ، ان حکومتوں کو قیصر و کسری کہا جا تا ان دو حکومتوں نے اپنے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں مقامی سرداروں کو اختیارات دے رکھے تھے، اس لئے ہر پیدا کسی نہ کسی حکومت کا نمائندہ ہوتا تھا۔ عرب کے باشندے ان کےاحکامات کو ماننے کے پابند تھے۔ بیت المقدس جو عرب ہی کا علاقہ تھا وہاں روم کی حکومت تھی۔

حضرت زکریا علیہ السلام بیت المقدس میں رہتے تھے اس علاقہ میں سرداروں کے درمیان جھگڑا رہتا تھا ، سردار بھی اسرئیلی تھے کچھ سرداروں نے وہاں رومیوں کو دعوت دی سرداروں کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر علاقہ میں رومی داخل ہو گئے اور اپنا سکہ جمالیا ، سرداروں نے بھی ان کا خیر مقدم کیا۔

تاریخ کے مطابق حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش سے باسٹھ سال قبل رومیوں نے بیت المقدس پر پوری طرح غلبہ حاصل کر لیا ان میں سے ایک یہودی سردار جو ہیر وداعظم کے نام سے مشہور تھا اور رومی حکومت کا منظور نظر تھا اختیارات اس کے ماتحت تھے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے زمانے میں شمام اور فلسطین کا پورا علاقہ قیصر روم کے زیر اثر آچکا تھا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا علاقہ کلیلی کا بھی وہی فرمانروا تھا۔

رومی بد خصلت، بے حیا اور بے شرم تھے، ان کی پوری زندگی گناہ آلود تھی رومیوں کی دیکھا دیکھی یہودیوں نے بھی ان کی بد عادتیں اور بے شرمی کا طور طریقہ اپنا لیا اور گمراہی کا راستہ اختیار کر لیا۔

اللہ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر گمراہ قوم کی طرف بھیجا آپ لوگوں کو تبلیغ کرتے کہ ماں باپ کی عزت کرو، عورتوں سے نرمی کا سلوک کرو، کسی کا حق نہ مارو، لوگوں سے اچھا برتاؤ کرو کسی پر ظلم نہ کرو، جس کےپاس کھانا ہو وہ بھوکے کو کھانا کھلائے جس کے پاس دو کرتے ہوں ان میں سے ایک کرتا ایسے ضرورت مند کو دو جس کے پاس نہ ہو جو لوگ حکومت کی طرف سے ٹیکس وصول کرنے پر مامور ہوتے ان سے کہتے کہ جو مقرر ہے وہی لو اور اپنی تنخواہ پر گزارہ کرو۔

اور نماز اور روزے کی بھی تلقین فرماتے آپ فرماتے کہ اللہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو، نہ کسی کواللہ کا شریک ٹھہراؤ اللہ نے تم کو پیدا کیا وہی تم کو رزق دیتا ہے تم اسی کی بندگی کرو، اپنے مال میں سے صدقہ نکالو۔ شب و روز اللہ کا ذکر کرو۔

آپ اپنے زمانہ میں بے حد مشہور تھے ، آپ کا شمار نامی گرامی لوگوں میں ہوتا تھا لوگ آپ کی بے حد عزت اور احترام کرتے تھے آپ نے کبھی عیش و عشرت کی زندگی بسر نہیں کی ، آپ دنیاوی آرام اور لذتوں سے دور رہتے تھے۔

آپ نے اللہ کا ذکر کرنے کے لئے اپنا ٹھکانہ شہر سے دور جنگل میں بنا لیا تھا ساری زندگی اسی سنسان جگہ پر گزاردی لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچانے اور ہدایت کے لئے آبادی کا رخ کرتے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے ۔

آپ تو رات کے احکام پر پوری طرح عمل کرتے تھے بنی اسرائیل کو بھی اس پر عمل کرنے کی تلقین کرتے تھے، اسرائیلیوں میں سے بھی بہت سے لوگ آپ کے خلاف ہو چکے تھے۔ آپ کی باتوں کو ناپسند نہیں کرتے اسلئے آپ کو بہت کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، آپ نے ظالموں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا حکومت وقت اور سرداروں کے ظالمانہ رویہ سے بھی مایوس ہو چکے تھے ان کے غلط کاموں پر انہیں ٹوکتے تھے اور ساتھ ہی ان کی اصلاح کے لئے بھی کوشش کرتے۔

اس بنا پر آپ کو قید میں بھی ڈالا گیا اس پر بھی آپ نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔

حضرت یحییٰ علیہ السلام کی جو خاص صفت بیان کی گئی وہ یہ کہ آپ اللہ کے فرمان کی تصدیق کرنے والے ہوں گے آپ اللہ کا دین پھیلانے اور گمراہوں کو راہ راست پر لانے کے لئے ہر جگہ جاتے اور منادی کرتے تھے کہ لو گو تو به کرو آسمان کی بادشاہی قریب آگئی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام سے فرمایا اے بیچی کتاب الہی کو مضبوطی سے تھام لے، ہم نے اسے بچپن ہی میں حکم سے نوازا اپنی طرف سے اس کو نرم دلی اور پاکیزگی عطا کی وہ بڑا پر ہیز گار تھا اور اپنے والدین کا تا بعد ار تھا۔ وہ سرکش اور نا فرمان نہ تھا۔

ایک مرتبہ حضرت زکریا علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت بیٹی سے ملنے کی غرض سے جنگل گئے ، تلاش کے بعد ان تک پہنچے اور کہابیٹا ہم تمہیں دیکھنے کے لئے بہت بے چین ہیں تم یہاں آنسو بہا ہے ہو ۔

حضرت یحییٰ علیہ السلام نے ادب سے جواب دیا ”ابا جان آپ ہی نے ہمیں بتایا تھا کہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک میدان ہے جو خدا کے خوف سے آنسو بہائے بغیر پار نہیں ہو سکتا اور جنت تک نہیں پہنچ سکتا ۔

حضرت زکریا علیہ السلام یہ باتیں سن کر رو پڑے، حضرت یحییٰ علیہ السلام نیک اعمال کے ذریعہ ہی اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرتے رہے جبکہ بنی اسرائیل مذہبی عالموں میں یہ صفت نہیں تھی بلکہ انہیں اس بات پر فخر تھا کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہیں وہ جو چاہیں کریں ان سے کوئی پوچھ کچھ نہیں ہوگی وہ اپنے آپ کو خدا کے چہیتے سمجھنے لگے تھے اور کہا کرتے تھے کہ بہشت تو ان کے لئے خاص کر دی گئی ہے اسی زعم نے اسرائیلیوں کو کہیں کا نہ رکھا دنیا میں بھی وہ خوار ہونے لگے خدا کے نزدیک بھی۔

آپ کے پاس اسرائیلی عالم آتے تو آپ انہیں صاف صاف کہتے کہ تم اس بات پر غرور نہ کرو کہ تم ابراہیمؑ کی اولاد ہو، آپ فرماتے کہ جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے تمہارے اعمال بھی اچھے نہیں ہیں۔

حضرت یحییٰ علیہ السلام کی باتیں دل پر اثر کرنے والی ہوتی تھیں جو سنتا دم بخود ہو جاتا اور روحانی سکون اور مسرت حاصل کرتا ۔

بنی اسرائیل میں صدیوں سے ایک پرانی رسم چلی آرہی تھی جسے پستمہ کہا جاتا تھا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی تبلیغ کے نتیجے میں جو لوگ گناہوں سےتو بہ کرنے کے بعد اللہ کا دین اختیار کرنے کے خواہشمند ہوتے وہ اپنی اصلاح کے لئے آپ کے پاس جاتے آپ ایسے لوگوں سے تو بہ کراتے اور ساتھ ہی دریائے اردن کے پانی کا ایک چلوسر پر ڈالتے۔ یہ اس بات کی تصدیق تھی کہ وہ بدی چھوڑ کر نیکی کی طرف آگئے ہیں آپ ان لوگوں کے لئے دعائے خیر کرتے ، ہر آنے والا شخص تو بہ کرنے ۔ نے والا شخص تو بہ کرنے کے بعد آپ کی تعلیمات پر چل کر آئندہ گناہوں سے بچ کر رہنے کا وعدہ کرتا۔

چنانچہ حضرت یحییٰ علیہ السلام اپنی قوم میں بپتسمہ دینے والے لقب سے پہچانے جانے لگے بپتسمہ کا مطلب بندے کو اللہ کے رنگ میں رنگنا ہے، سب سے بہترین اللہ کا رنگ ہے یہ عمل اصطباغ کہلاتا تھا۔ آپ کا زمانہ اور حضرت عیسی علیہ السلام کا زمانہ ایک ہی تھا دونوں اللہ کے نبی تھے حضرت ی، حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات اور تعلیمات کے بارے میں سنتے رہتے تھے۔

آپ کو معلومات حاصل کرنے کا شوق تھا اس غرض سے آپ نے اپنے دوشاگردوں کو حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس پیغام دے کر بھیجا کہ آیا وہ جیسی شہرت سنتے ہیں عین اس کے مطابق ہیں، یا نہیں۔

وہ دو شاگرد حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس گئے اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کا پیغام سنایا تو حضرت عیسی علیہ السلام نے انہیں نصیحت کی اور دین کی پا نہیں بتائیں اور معجزات بھی دکھائے اور فرمایا کہ جو کچھ تم نے دیکھا ہے وہی جا کر بیان کرو۔ شاگرد واپس آئے اور فرمایا جو اندھے تھے دیکھنے لگے جو لنگڑے تھے چلنے کے قابل ہوئے جو مردہ تھے زندہ ہوئے۔

آپ نے سن کر فرمایا کہ کمزوروں کی مدد کرنا بھی بہت بڑی نیکی ہے آپ برائی اور فحاشی سے بیحد نفرت کرتے تھے آپ نے ایک عورت کو بے حیا زندگی گزارنے پر منع کیا تو اس نے آپ کو شہید کر دیا۔

******

Comments

Popular Posts

اچھی صحت کے راز اچھی صحت کے بارے میں میں آج آپکو کچھ ٹیپس بتاتا ہوں جو آپکے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں 01.رات کو جلدی سونا. 02.رات کو سونے سے پہلے ایسا لباس استعمال کرنا جو آپکی نیند میں خلل نہ ڈالے مثال کے طور پر اکثر ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ایسا ڈریس استعمال کرتے ہیں جس سے رات کو انکی نیند میں خلل آتا ہے سکون کی نیند سو نہیں سکتے اسیطرح رات کو سونے سے پہلے کوئی چیز نہ کھائیں اس سے مراد سونے سے کم از کم تین گھنٹے پہلے کوئی چیز کھائیں جو سونے تک آپ کے جسم پے بوجھ نہ رہے بلکہ سونے کے ٹائم تک آپ اسے ڈائی جیسٹ کر لیں 03.سونے سے پہلے پانی کا استعمال کم کرنا تا کہ رات کو سوتے ہوئے آپکی نیند میں خلل نہ آئے کیوں کہ اچھی صحت کا راز اچھی نیند ہے نیند پوری نہ ہو یا بندہ سوتے وقت اگر آرام دہ اپنے آپکو محسوس نہ کرے تو صحت کی خرابی کا باعث بنتا ہے صبح جلدی اٹھنا صحت کے لیے بہت اچھا ہے کیوں کہ صبح کی تازہ ہوا انسان کی زندگی میں مثبت کردار ادا کرتی ہے اس لیے اس بات کا باخوبی آپکو پتا ہونا چاہیے پریشانیوں کو اپنے سے دور رکھنا انسان کے بس میں ہے کہ وہ اپنے آپکو کیسے مینج کرتا ہے اگر تو ہر وقت انسان غصے میں رہے تو بھی اسکی صحت پے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اگر حالات سے بندہ تنگ یو تو اسے چاہیے کے اپنے حالات کو درست کرنے کے لیے ایس جگہ کا انتخاب کرے جہاں اسے ذہنی اور جسمانی سکون ہو کیوں کہ یہ صحت پہ ڈائریکٹ اثر ڈالتا ہے اچھی غذائیں استعمال کرنا سبزیوں کا استعمال زیادہ کرنا کوشش کر کے قدرتی اجزا کو زیادہ ترجیع دینا صاف پانی کا استعمال کرنا تازہ ہوا کے اندر اپنے آپکو زیادہ لے کے جانا آلودگی والے ماحول سے اپنے آپکو بچانا یہ ساری چیزیں اچھی صحت کے لیے کارآمد ثابت ہوتی ہیں