حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام
حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی عظیم المرتبت پیغمبر تھے، ہمارے پیارے نبی سے پہلے جتنے بھی پیغمبر آئے ان سب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا رتبہ سب سے بڑا تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ چند پیغمبروں کے ماسوا حضرت ابراہیم ہی کی نسل سے سارے پیغمبر آئے ۔ ہمارے نبی بھی انہی کی نسل سے ہیں ۔ حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تعلق بھی ان ہی سے تھا یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہودی اور نصاری بھی مانتے ہیں اور مسلمان تو بہت زیادہ ہی مانتے ہیں۔ ہر نماز میں آپ کا ذکر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اس کتاب میں ابراہیم کا ذکر کیجئے وہ راستی والے پیغمبر تھے۔ یعنی سچے اور راہ راست پر تھے۔
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ بے شک اللہ کے فرمانبردار تھے اور بالکل ایک ہی طرف کے ہور ہے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے اللہ نے ان کو چن لیا تھا اور سیدھے راستے پر ڈال دیا تھا ہم نے ان کو دنیا میں بھی خوبیاں دی تھیں اور آخرت میں بھی ۔
یہودی اور نصاری تو ان سے بہت زیادہ قربت کا دعویٰ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہ وہ یہودی تھے نہ نصرانی تھے بلکہ وہ سیدھے راستے پر تھے اور تقوی والے تھے۔“ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی سفر کرتے گذری آج شام میں ہیں تو کل مصر میں، پھر کچھ عرصہ بعد اردن یا فلسطین میں بھی حجاز کا دورہ کر رہے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام شہر بابل میں پیدا ہوئے ۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے عراق کا نام بابل ہی تھا ، یا عراق کے ایک شہر کا نام تھا، آپ کے والد کا نام آزر تھا ۔ آپ کے زمانے میں لوگ بہت زیادہ گمراہ تھے ہر قسم کی اخلاقی برائیاں ان میں پائی جاتی تھیں، آپس میں ان کا برتاؤ بھی اچھا نہیں تھا نہایت سنگ دل تھے ، بھوکوں کو کھانا نہیں کھلاتے زندہ انسان کو آگ میں پھینک دیتے قتل و غارت گری کرتے ، اس لئے اللہ تعالی نے اس قوم کے مقابلے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ وہ رحیم المزاج اور حلیم الطبع تھے۔
رحیم المزاج کا مطلب یہ ہے کہ آپ بہت رحم والے تھے اور رحم دل تھے لیکن آپ کی قوم رحم دل نہ تھی ، بلکہ سنگ دل اور ظالم تھی۔ حلیم الطبع کا مطلب یہ ہے کہ آپ برد بار اور صبر کرنے والے برداشت کرنے والے اور حوصلہ رکھنے والے تھے۔ لیکن آپ کی قوم ان صفات سے بالکل محروم تھی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” تمہارے لئے ابراہیم عمدہ نمونہ ہیں۔ اس لئے تمہارے اندر بھی یہی صفات ہونی چاہئیں ، برداشت کرنے والے، صبر کرنے والے اور حوصلہ رکھنے والے۔اور ایک جگہ فرماتا ہے کہ سب سے بہتر دین، دین ابراہیم ہے۔“ دین ابراہیم میں تقومی اور سچائی کی دعا کی گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کا زمانہ ایک ہی تھا، بلکہ حضرت لوط اور حضرت ابراہیم السلام دور کے رشتہ کے بھائی تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بت پرستی سے بھی بہت زیادہ نفرت تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ خود بت پرست تھے اور بت بنا کر بازار میں بیچتے تھے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے فرمایا
اے میرے ابا جان تم بتوں کو پوجتے ہو تم گمراہی میں پڑ چکے ہو۔باپ نے بیٹے کی بات سن کر کہا
”اے ابراہیم کیا تو ہمارے پاس کوئی کچی بات لے کر آیا ہے یا ہم سے مذاق کر رہا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا
ہمارا اور تمہارا رب وہی ہے جس نے زمین اور آسمان بنایا۔ پھر فرمایا : اے میرے ابا جان ! تم ایسی چیز کی کیوں عبادت کرتے ہو جو نہ کچھ سنے اور نہ کچھ دیکھے نہ تمہارے کچھ کام آسکے اے میرے ابا جان میرے پاس ایسا علم پہنچا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا۔ تم میرے کہنے پر چلو تم کو سیدھا راستہ بتلاؤں گا۔ اے میرے ابا جان تم شیطان کی پرستش نہ کرو ، شیر الیمن رحمان کا نافرمانی کرنے والا ہے۔ اے میرے ابا جان، میں اندیشہ کرتا ہوں کہ تم پر رحمان کی طرف سے کوئی عذاب نہ آپڑے پھر تم شیطان کے ساتھی ہو جاؤ۔
باپ نے جواب دیا
"کیا تم میرے معبودوں سے پھرے ہوئے ہو؟ باپ نے پھر کہا: ابراہیم اگر تم باز نہ آئے تو میں تم کو پتھروں سے سنگسار کر دوں گا تم ہمیشہ
ہمیشہ کے لئے مجھ سے کنارہ کر جاؤ۔
ابراہیم نے باپ کی زبانی یہ الفاظ سن کر کہا۔ میں سلام کرتا ہوں اور اپنے رب سے تمہارے لئے مغفرت کی درخواست کروں گا بے شک اللہ مجھ پر مہربان ہے اب میں جارہا ہوں اپنے رب کی عبادت کروں گا اپنے رب کی عبادت سے محروم نہ رہوں گا ۔ یہ کہہ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام رخصت ہو گئے ۔
ایک مرتبہ آپ نے اپنی قوم سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہمارا اور تمہارا رب وہی ہے جس نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا۔ اے قوم تم اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بت کو پوج رہے ہو، نہ تو ان میں یہ طاقت ہے کہ یہ نقصان پہنچا میں نہ فائدہ ہی پہنچا سکتے ہیں ۔
قوم نے کہا ”ہم اپنے باپ دادا کے راستے پر چل رہے ہیں ہم نے ان کو بھی اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا۔
ابراہیم بولے : ” رب وہی ہے جس نے مجھ کو اور تم سب کو پیدا کیا وہی
رہنمائی کرتا ہے۔ وہی مجھ کو کھلاتا ہے، پلاتا ہے جب میں بیمار ہوتا ہوں تو شفا دیتا ہے۔ آپ پر ایک دور ایسا بھی گزرا جو سراسر آزمائشی تھا آپ نے خود بھی اپنی عقل و فہم سے کام لیا۔ آپ نے غور کرنا شروع کیا کہ قوم بتوں کے علاوہ چاند، سورج اور ستاروں کو کیوں اپنا معبود مجھتی ہے جب کہ یہ سب زوال پذیر ہیں۔
ایک مرتبہ آپ نے رات کو ستارے دیکھے تو خیال کیا یہ رب ہو سکتے ہیں ؟ پھر کہا کہ یہ میرا رب ہے، جب غائب ہو گئے تو فرمایا کہ غروب ہو جانے والوں سے میں محبت نہیں رکھتا۔ جب چاند کو چمکتا ہوا پایا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے جب وہ بھی اوجھل ہو گیا تو فرمایا کہ اگر مجھ کو میرا ارب ہدایت نہ کرتا رہے تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں ۔ جب آفتاب کو دیکھا تو فرمایا کہ یہی میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے جب وہ بھی غروب ہو گیا تو فرمایا: "اے قوم بے شک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا میں سیدھے راستے پر ہوں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے کسی کے بتائے ہوئے طریقے یا باپ دادا کے طریقے جو وہ کرتے رہے ان پر عمل نہیں کیا بلکہ آپ نے اپنی عقل سلیم سے کان لیتے ہوئے غور و فکر کرنا شروع کیا ، اندھی تقلید نہیں کی ، اللہ کی رحمت بھی شامل حال رہی ، شہر بابل کی روایات کے مطابق وہاں ہر سال میلہ لگاکرتا تھا، میلے میں لوگ تجارتی سامان لے جا کر فروخت کرتے تھے وہاں بت بھی فروخت ہوتے ضرورت کی تمام چیزیں مل جاتیں اس لئے لوگ میلے میں جاتے وہاں تفریح کا سامان بھی مہیا تھا۔ لوگ رنگ رلیاں مناتے سیرو تفریح کرتے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ہر طرف کے لوگ میلے میں جمع ہوئے خرید و فروخت ہورہی تھی کہ اچانک کسی کے چولھے سے چنگاری اڑی، آگ لگ گئی ۔ ہر شے جل کر بھسم ہوگئی ۔ بت بھی جل کر راکھ ہو گئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ منظر دیکھ کر کہا کہ یہ بہت اپنے آپ کو آگ سے نہیں بچا سکے تو یہ کس طرح معبود کہلانے لگے ۔
معمول کے مطابق دوسرے سال بھی میلہ لگا تمام لوگ میلے میں جانے کی تیاریاں کرنے لگے۔ ابراہیم بھی ہر سال میلے میں جایا کرتے تھے لیکن اب کی سال انہوں نے جانے سے انکار کر دیا۔ بولے کہ میلے میں جب تمام لوگ چلے جائیں تو میں ان جھوٹے معبودوں کی درگت بناتا ہوں۔ سب میلے میں چلے گئے میدان خالی تھا بت خانے کے آس پاس بھی کوئی نہیں تھا۔ ابراہیم کے لئے یہ ایک بہت ہی اچھا موقع تھا، وہ بت خانے میں گھے اور تمام بتوں کو توڑ کر چکنا چور کر دیا۔ ماسوائے بڑے بت کے، بڑے بت کو ہاتھ نہیں لگایا اسے صحیح سالم رہنے دیا اس کے کندھے پر کلہاڑا رکھ دیا جس سے بتوں کو توڑا تھا۔
جب لوگ میلے سے واپس آئے تو پروہت بت خانے میں داخل ہوئے ۔ یہ دیکھ کر ان سب کو حیرت ہوئی کہ بت چکنا چور ہو کر زمین پر پڑے نے لگے کہ ہو نہ ہو ہوئے ہیں ، آپس میں ایک دوسرے سے چہ میں چہ میگوئیاں کرنے ۔ اس میں ضرور نوجوان ابراہیم کا ہاتھ ہے۔ کیوں کہ وہی بتوں کے خلاف ہے۔ لوگ برہم ہوئے، ابراہیم کو بلایا ، ان سے دریافت کیا کہ ہمارے معبودوں کو کس نے اس حال پر پہنچایا ہے؟
ابراہیم نے جواب دیا کہ تم اپنے بڑے بت سے کیوں نہیں پوچھتے ہو جسے اپنا معبود سمجھتے ہو وہ سب کچھ تمہیں بتادے گا۔
تمام لوگوں نے کہا کہ ابراہیم کو بادشاہ نمرود کے سامنے پیش کیا جائے۔
چنانچہ بادشاہ کو اس کی اطلاع دی گئی ۔ لوگوں نے کہا کہ یہ معاملہ بادشاہ نمرود کے سامنے پیش کریں گے اور ابراہیم کو سزا دلوائیں گے۔ لوگ نمرود کے دربار میں پہنچے، سب نے مل کر بادشاہ سے شکایت کی کہ ابراہیم ہمارے بتوں کی تضحیک کیا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بت معبود نہیں بلکہ معبود کوئی اور ہے اس نے ہمارے بتوں کو توڑ ڈالا اور ہمارے بتوں کے ساتھ گستاخی کی ہے اسے سزادی جائے۔
نمرود نے لوگوں کی زبانی ایسی باتیں سن کر حکم دیا کہ ابراہیم کو میرے دربار میں حاضر کیا جائے۔ چنانچہ ابراہیم کو شاہی دربار میں لایا گیا۔ دربار میں تمام مصاحب اور امراء بیٹھے ہوئے تھے نمرود نے ابراہیم سے پوچھا کہ کیا۔ تو ہمارے معبودوں کی تضحیک کرتا اور جھٹلاتا ہے؟ کیا تو نے ہمارےمعبودوں کو توڑا ہے؟
بادشاہ نمرود بڑے سخت لہجہ میں ابراہیم سے باتیں کر رہا تھا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جرات مندی کے ساتھ ہر سوال کا جواب دیتے رہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ یہ سب تمہارے معبود ہی بتا سکتے ہیں، ان ہی سے پوچھ لو تو بہتر ہے۔
شاہی دربار میں سردار ، امراء اور مصاحب سب ہی بیٹھے تھے اور بادشاہ اور ابراہیم علیہ السلام کے درمیان ہونے والی تمام باتیں سن رہے تھے۔ سب نے کہا کہ کیا بت بھی باتیں کر سکتے ہیں۔
پھر ابراہیم نے جواب دیا کہ جو نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں نہ ہی تمہاری آرزو پوری کر سکتے ہیں پھر کس طرح تم انہیں اپنا معبود مانتے ہو، میرا رب مارتا ہے اور جلاتا بھی ہے۔
نمرود نے کہا کہ یہ تو میں بھی کر سکتا ہوں جسے چاہے موت کی سزادوں جسے چاہے رہا کر دوں ۔ میں اس ملک کا حکمران ہوں ، مجھ میں یہ قوت ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میرا ارب مشرق سے سورج کو نکالتا ہے۔ تو بھی مغرب سے نکال دے۔ نمرود لا جواب ہو گیا۔ لوگوں نے شرمندگی سے اپنے اپنے سر جھکا لئے۔
ان میں سے ایک شخص نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اس شخص کو زندہ جلا دو تا کہ دوسرے عبرت حاصل کریں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے پھر کہا کہ اے لوگو تم اس کو اپنا معبود بتاتے ہو جسے تم نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ تم صرف ایک خدا کی عبادت کیا کرو صرف وہی عبادت کے لائق ہے جس نے ساری کائنات کو پیدا کیا ۔
لوگوں نے ابراہیم کی باتوں پر کان نہیں دھرا۔ بادشاہ نمرود نے بھی حکم دے دیا کہ ابراہیم کو آگ میں زندہ جھونک دو۔ چنانچہ آگ کا الاؤ تیار کیا گیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جلنے کا منظر دیکھنے کے لئے تمام لوگ جمع ہو گئے ، بتوں کے پجاری بھی خوش تھے اور کہنے لگے کہ ہمارے معبودوں کو توڑنے کی ابراہیم کو سزا ملے گی۔ پھر ابراہیم کو دیکھتی آگ میں ڈال دیا گیا۔
آتشکده نمرود حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کچھ بگاڑ نہ سکی اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو جلنے سے بچالیا۔
اگر چہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کو بہت پہلے ہی چھوڑ چکے تھے لیکن ان کے لئے اکثر دعا کرتے تھے کہ وہ راہ راست پر آجائیں لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وحی کے ذریعہ حکم دیا کہ مشرک و کافر اور گمراہی اختیار کرنے والوں کے لئے دعا نہ کریں۔ کیوں کہ ان کا باپ بھی گمراہ لوگوں میں شامل تھا ، اسی لئے دعا کرنے سے منع کیا گیا۔ اللہ کے نزدیک تو یہ اس کی قبول ہوتی ہے جو موت سے پہلے تو بہ کرے اور نیک عمل بھی کہے اصل ایمان نیک عمل ہی ہے۔
آپ نے تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا، لیکن گمراہ قوم کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ وہ لوگ آپ کی زندگی کے درپے تھے اور زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ آپ کو ستاتے اور پریشان کیا کرتے تھے جس سے آپ کا جینا دو بھر ہو گیا تھا ، چنانچہ تنگ آکر آپ نے ہجرت کرنے کی ٹھان لی سامان سفر باندھا فلسطین کی طرف روانہ ہوئے ۔
روایات اور تاریخ کے مطابق حضرت لوط علیہ السلام بھی آپ ہی کے زمانے میں تھے، وہ بھی آپ کے رشتہ کے بھائی تھے وہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہمراہ فلسطین روانہ ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین میں بھی تبلیغ کرتے تھے فلسطین میں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد مصر روانہ ہوئے اس زمانے میں مصر میں فرعون کی حکومت تھی۔ مصر پر جو بادشاہ حکومت کرتا تھا وہ فرعون کہلاتا تھا۔ روایات کے مطابق شاہی خاندان سے آپ کی رشتہ داری تھی اس لحاظ سے مصر میں جو بادشاہ حکومت کرتا تھا وہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا رشتہ دار تھا اسی لئے شاہ مصر نے آپ کی بڑی آؤ بھگت کی ، آپ کو ماننے لگا اور مہمان کی حیثیت سے ٹھہرایا۔ آپ نے شاہ مصر کو بھی اسلام کی دعوت دی اور نیکی کا راستہ بتایا۔ شاہ مصر عیش پرست تھا اور گمراہی میں مبتلا تھا، اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نزدیک قابل اعتبار نہ تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ کامدانی قوم سے تعلق رکھتی تھیں آپ ایک نیک خاتون تھیں ۔ عظمت اور عفت میں مثالی حیثیت رکھتی تھیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ حضرت سارہ بھی تھیں اور ہر مشکل وقت پر ساتھ دیا کرتی تھیں ۔ حضرت ابراہیم کی شاہ مصر سے رشتہ داری تھی اس بنا پر شاہ مصر نے حضرت سارہ کو اپنے محل میں بلا بھیجا۔ حضرت ابراہیم ما یہ السلام بادشاہ کے مزاج سے خوب واقف تھے اسی وجہ سے سارہ کو عمل میں لے گئے، حضرت ابراہیم سفر سے بہت تھک چکے تھے اس وجہ سے بادشاہ سے کوئی بات نہ کر سکے صرف اتنا کہا کہ اللہ تعالیٰ غرور کو پسند نہیں کرتا بادشاہ نے جیسے ہی حضرت سارہ کی طرف بری نیت سے ہاتھ بڑھانا چاہا تو اس پر سارہ کا رعب اور دبدبہ طاری ہو گیا جس سے وہ گھبرا گیا اس نے فورا سارہ سے معافی طلب کی ۔ حضرت سارہ نے اس کا قصور معاف کر دیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اسے معاف کر دیا۔
شاہ آپ کے اخلاق سے بہت متاثر ہوا اور اپنی بیٹی ہاجرہ کو آپ کی زوجیت میں دے دیا اور بہت سا مال و اسباب بھی ساتھ کر دیا اور ایمان لانے کا وعدہ کیا ، آپ حضرت ہاجرہ کو اپنے گھر لے گئے زندگی بڑی خوشگواری سے گزر رہی تھی ، حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ محبت اور اتفاق سے ساتھ ساتھ رہنے لگیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام مصر میں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد فلسطین روانہ ہوئے اسی لئے فلسطین کو انبیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کوئی اولاد نہیں تھی ، اس لئے آپ کو غم تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام اولاد کے لئے اکثر دعا کیا کرتے تھے اللہ نے آپ کی دعا قبول کی۔ حضرت ہاجرہ کو اولاد کی نعمت سے نوازا۔ بچہ کا نام اسمعیل رکھا گیا۔ حضرت سارہ کے بطن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی اس لئے سارہ کے دل میں رشک پیدا ہوا۔ سارہ کو بہت دکھ ہوا اور بہت مایوسی ہوئی۔ مایوسی سے دماغ چڑ چڑا ہو گیا اور حضرت ہاجرہ سے ان بن ہو گئی ، زندگی نا خوشگوار ہوگئی۔
ایک دن سارہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے خواہش ظاہر کی کہ ہاجرہ اور اس کے بچہ کو میری نظروں سے دور رکھا جائے۔ سارہ کی یہ تجویز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے رنج و غم کا باعث بن گئی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سارہ سے بھی بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ وہ آپ کی پہلی بیوی تھیں اللہ تعالی نے آپ پر وحی بھیجی کہ ہاجرہ اور اس کے بچہ کو علیحدہ رکھو۔ آپ کو اللہ کے حکم کی تعمیل کرنا پڑی۔ اگر چہ یہ بات آپ پر شاق گزری لیکن اللہ کی یہی مرضی تھی اللہ کے حکم کے آگے آپ نے سر جھکا لیا۔ ایک روز آپ اپنی چھوٹی بیوی ہاجرہ اور اس کے بچہ کو لے کر کسی انجانی منزل کی طرف روانہ ہو گئے ، چلتے چلتے ایک وادی میں پہنچے جہاں چنیل میدان اور پہاڑوں کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا، ہریالی کا کہیں دور دور تک نام و نشان نظر نہیں آ رہا تھا ایسے مقام پر پانی بھی نہیں تھا زندگی بڑی کٹھی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک مقام چن لیا اور وہیں پڑاؤ ڈالا۔ آپ اپنے ساتھ پانی کا ایک مشکیزہ اور کھجوروں کی ایک تھیلی لائے تھے یہی ان کا کھانا تھا کھجور ہیں اور پانی کا مشکیزہ حضرت ہاجرہ کے حوالے کیا اور کہا کہ میں اس مقام سے روانہ ہو رہا ہوں تمہارا اللہ نگہبان ہے۔
جب آپ جانے لگے تو حضرت ہاجرہ آپ کے پیچھے پیچھے دوڑیں اور کہنے لگیں کہ اس سنسان اور بیابان میں مجھے کہاں چھوڑ کر جا رہے ہو، میں کسی کے آسرے پر یہاں زندہ رہوں ۔ یہاں تو پانی کی ایک بوند بھی نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم خاموش ہے ۔ جب حضرت ہاجرہ نے بار بار اصرار کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں یہاں اللہ کے حکم پر تمہیں چھوڑ رہا ہوں ۔ حضرت ہاجرہ نیک اور عبادت گزار تھیں جب اللہ کا حکم سنا تو فرمایا کہ اللہ میری حفاظت کرے گا اور زندہ رہنے کا سامان فراہم کرے گا مجھے آپ یہیں چھوڑ دیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام روانہ ہونے لگے تو آپ دیکھتی رہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس جدائی کے موقعہ پر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اللہ کا حکم بجالائے ۔ آپ نے اپنے پیارے بیٹے اور بیوی کو چھوڑ دیا ، یہ گھڑی بہت زیادہ آزمائش کی تھی۔ آپ نے اللہ سے دعا کی اے پروردگار میں اپنی بیوی بچہ کے ساتھ ایسی جگہ آباد ہو رہا ہوں جہاں تیرا مقدس گھر ہے ، جہاں کی زمین بالکل ہی بنجر ہے یہاں کچھ پیدا 1 نہیں ہوتا تو اپنے فضل و کرم سے اس زمین کو اس قابل بنا دے کہ یہاں پھل پیدا ہوں تا کہ ہم تیرا رزق کھائیں ، عبادت کریں، نماز قائم کریں اور تیرا شکربجا ہیں۔
آپ نے دعا کی اور چلے گئے حضرت ہاجرہ تنہا رہ گئیں۔ پاس میں صرف شیر خوار بچہ تھا۔ کچھ دنوں تک حضرت حاجرہ صرف کھجوروں اور پانی کے مشکیزہ پر گزارہ کرتی رہیں۔ بچہ کو اپنا دودھ پلاتیں ، مناسب کھانا نہ ہونے کے سبب آپ کمزور ہوتی گئیں ۔ سینہ میں دودھ بھی خشک ہو چکا تھا اس لئے دودھ نہیں اتر رہا تھا۔ بچہ بھی بھوکا رہنے لگا۔ حضرت ہاجرہ بچہ کو بھو کا دیکھ کر بے تاب ۔ ہو گئیں ، خود اپنے لئے بھی کھانے کے لئے کچھ نہ تھا، اسمعیل علیہ السلام بچے تھے ، بھوک سے رورہے تھے۔ بچہ کی یہ حالت دیکھ کر ماں تڑپ اٹھی۔ دل میں خیال آیا کہ کہیں کوئی انسان نظر آ جائے تو ڈھارس بندھے۔ آپ دوڑی ہوئی ایک بلند مقام پر چڑھ کے چڑھ گئیں یہ ایک پہاڑی تھی اس کا نام "صفا" تھا۔ دور دور تک نظریں دوڑائیں لیکن کوئی نظر نہ آیا وہاں سے اتر کر قریب ہی ایک اور پہاڑی پر چڑھ گئیں اس کا نام ” مروہ “ تھا لیکن وہاں سے بھی کوئی نظر نہ آیا ۔ ہر چہار طرف سوائے ویرانی کے کچھ نہ تھا اسی بے چینی اور بے قراری کے عالم میں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں پر سات مرتبہ چکر لگائے پھر بچہ کے پاس پہنچیں دیکھا کہ بچہ کی ایڑی کے قریب ہی اللہ کی رحمت سے ایک چشمہ پھوٹ کر بہہ رہا ہے۔ آپ پانی دیکھ کر حیران ہو گئیں اللہ کا شکر ادا کیا پھر پیا۔
پانی نہایت ٹھنڈا تھا ذائقہ بھی خوش گوار تھا آپ نے بہتے ہوئے پانی سے کہا ” زم زم یعنی شہر جا۔ حضرت ہاجرہ کو پانی میسر آ گیا۔ جہاں ٹھہری ہوئی تھیں۔ ایک روز وہاں سے کچھ فاصلہ پر ایک قافلہ گزر رہا تھا۔ قافلےوالوں نے دور سے انسانی نفوس کو دیکھا تو انہیں تجسس ہوئی وہ قریب آئے تو حضرت ہاجرہ اور بچہ کو وہاں پایا انہیں پانی کی بھی ضرورت تھی حضرت ہاجرہ سے پانی طلب کیا ۔ تو آپ نے زم زم کے چشمے کی طرف اشارہ کیا قافلے والوں نے پانی پیا اور مویشیوں کو بھی پلایا اس کے عوض حضرت ہاجرہ کو کھانے کے لئے کھجوریں پیش کیں اور اس سنسان بیابان میں رہنے کا سبب دریافت کیا۔ حضرت ہاجرہ نے سب کچھ بتا دیا۔ کچھ روز قیام کے بعد قافلہ وہاں سے کوچ کر گیا۔ اسی طرح قافلے آتے رہے کچھ روز قیام کرنے کے بعد اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے ۔ ان کے آنے جانے کے سبب حضرت ہاجرہ کو کھانے کا سامان مل جاتا۔
ایک مرتبہ بنو جرہم کا قافلہ آیا جب آب زم زم دیکھا تو وہیں پڑاؤ ڈالا اور رہائش اختیار کر لی ان کے پاس کثرت سے مویشی بھی تھے۔ جوں جوں دن گزرتے گئے ، حضرت اسمعیل علیہ السلام بھی بڑے ہو گئے ، قبیلہ بنو جرہم کے آنے کے بعد آبادی کچھ بڑھ گئی اور ایک بستی بن گئی حضرت ابراہیم علیہ السلام کچھ عرصہ بعد وہاں پہنچے تو دیکھا کہ علاقہ میں کچھ انسان نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسمعیل اور بیوی حضرت ہاجرہ سے ملاقات کی ۔ اس طرح سے آپ کے آنے جانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ آپ حضرت ہاجرہ کے پاس بھی رہنے لگے، حضرت سارہ بھی حضرت ہاجرہ کی خیر لینے لگیں ۔
حضرت سارہ کے کوئی اور اولاد نہیں تھی۔ جس سے تھی۔ جس سے وہ اکثر غمگین رہا کرتیں ۔ پہلی بیوی کے اولاد نہ ہونے پر آپ بھی پریشان رہتے تھے۔ آپ بے حد مہمان نواز تھے، جب تک آپ کے دستر خوان پر مہمان نہیں ہوتا ، آپ کھانا نہیں کھاتے۔ معمول کے مطابق آپ کھانے کے لئے مہمان کا انتظار کر رہے تھے کہ مہمان آپہنچے ۔ آپ نے مہمانوں کا استقبال کیا اور خوش ہوئے جب آپ نے مہمانوں کے سامنے کھانا رکھا تو انہوں نے کھانے کو ہاتھ نہیں لگایا اور بیٹھے رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مہمانوں کے رویہ پر حیرت ہوئی ۔ آپ مہمانوں کے لئے جانوروں کو ذبح کرتے اور بھون کر ان کے سامنے رکھتے ۔ ان آنے والے مہمانوں کے لئے بھی اسی طرح کا انتظام کیا لیکن مہمان کھانا نہیں کھا رہے ۔ آپ کے زمانے میں یہ روایت تھی کہ مہمان کے کھانا نہ کھانے کا مطلب اعلان جنگ سمجھا جاتا ، اس لئے آپ کو فکر لاحق ہوئی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فکر مند دیکھ کر آنے والے مہمازں نے کہا آپ خوف نہ کھائیں ، ہم اللہ کی جانب سے آئے ہیں، ہم فرشتے ہیں اور قوم لوط کو ان کے گناہوں کی سزا دینے آئے ہیں اور آپ کے لئے بھی خوشخبری لے کر آئے ہیں۔ یہ سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام مسکرائے اور پوچھا یہ کیسی خوشخبری ہے؟ فرشتوں نے کہا کہ سارہ کے بطن سے بھی اولاد ہونے والی ہے ہ بات سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام حیرت میں پڑ گئے اور سوچا کہ میری عمر ایک سو برس اور سارہ کی عمر اسی برس ہے۔ بھلا اس بڑی عمر میں کوئی کس طرحاولاد کی امید رکھ سکتا ہے۔ لیکن اللہ قادر مطلق ہے وہ سب کچھ کر سکتا ہے، وہ خاموش رہے۔ حضرت سارہ فرشتوں کی بات سن کر ہنس پڑیں اور کہنے لگیں کہ میں بوڑھی ہو چکی ہوں اور ابراہیم بھی بوڑھے ہیں، اس عمر میں کس طرحاولاد ہو سکتی ہے۔
فرشتوں نے جواب دیا اللہ کے ہاں سب کچھ ممکن ہے۔ فرشتوں نے اسحاق کے پیدا ہونے کی بشارت حضرت سارہ کو سنائی فرشتوں نے صرف اتنا ہی نہیں کہا بلکہ یہ بھی کہا کہ اسحاق کا بھی بیٹا ہو گا اس کا نام یعقوب ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ تم پر رحمت اور برکت کرنے والا ہے۔ وہ تمہاری اولاد کوستاروں کی مانند پڑھائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سارہ کو اولاد کی نعمت سے نوازا اس کا نام اسحاق تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اب حضرت ہاجرہ کے پاس رہنے لگے، اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک اور آزمائش میں ڈالا ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے پیارے بیٹے حضرت اسمعیل کو قربان کر رہے ہیں۔ تین راتیں ایسے ہی خواب نظر آئے ۔ انبیاء کے خواب صرف خواب نہیں ہوتے ، وحی کا حصہ ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ حضرت اسمعیل کو قربان کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا سر جھکا لیا۔ آپ نے اپنے بیٹے سے کہااے میرے بیٹے !میں نے خواب میں تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھا۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اللہ تمہاری قربانی چاہتا ہے، اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟
آپ نے بلا جھجک کہا کہ اگر اللہ کا یہی حکم ہے میں اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے تیار ہوں آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
جب ضعیف باپ اپنے ارمانوں اور دعاؤں سے مانگے ہوئے بیٹے کو اللہ کی رضا کی خاطر قربانی کے لئے تیار ہو گیا تو بیٹا ابراہیم کا تھا، اس نے فوراً مان لیا اور اپنی گردن چھری کے نیچے رکھ دی۔ رحمت خداوندی نے جوش مارا اور آواز آئی اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں ۔ اس موقع پر اللہ کے فرشتے نے حضرت ابراہیم کے سامنے مینڈھا رکھ دیا ، تا کہ بیٹے کے بدلے اس کو ذبح کریں۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ یہی وہ قربانی ہے جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوئی آج بھی فرزندان توحید اسی نسبت سے ابراہیم کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
اللہ تک نہ قربانی کا گوشت پہنچتا ہے، نہ خون بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے۔“ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی آزمائش ہی میں گزری۔
پہلی مرتبہ نمرود نے آپ کو آگ میں ڈالا ، آگ ٹھنڈی ہوگئی، دوسری مرتبہ اپنی بیوی حضرت ہاجرہ اور ننھے اسمعیل کو سنسان اور ویران علاقے میں تنہا چھوڑنا پڑا، تیسری مرتبہ اپنے بیٹے اسمعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا پڑا، لیکن اللہ نے رحم کیا ہم بھی اسی طرح اپنے اندر قربانی کا جذبہ پیدا کر سکتے ہیں۔ اپنے اندر ایسا جذبہ اس طرح پیدا کر سکتے ہیں کہ جو شخص بھوکا ہوا سے کھانا کھلا دیا جائے تو یہ قربانی ہے۔ جو مفلسی کے عالم میں ہو اور کوئی پرسان حال نہ ہو ایسے شخص کی خبر گیری کرنا بھی قربانی ہے۔ جو ننگا ہوا سے کپڑے پہنانا بھی قربانی ہے۔ جو مرض میں مبتلا ہوا گر وہ غریب ہے تو اسے دوا فراہم کرنا قربانی ہے۔ مانگنے والے کو خیرات دینا بھی قربانی ہے۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا قربانی ہے۔ وطن کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہونا یہ بھی قربانی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین میں رہتے تھے ، حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمعیل سے ملنے کے لئے مکہ معظمہ آتے رہے۔ ایک مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کی تعمیر کی غرض سے مکہ تشریف آئے ، اس وقت حضرت اسمعیل کی عمر میں ۲۰ سال تھی۔ باپ نے بیٹے سے ملاقات کی ۔ اس مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام طویل عرصہ بعد مکہ آئے تھے۔ حضرت اسمعیل باپ کو دیکھ کر پھولے نہ سمائے ۔ خوشی خوشی گلے ملے۔ حضرت ابراہیم نے بیٹے سے فرمایا
”بے شک تیرے رب نے مجھے اس کے گھر ( بیت اللہ ) کی تعمیرکرنے کا حکم دیا۔ حضرت اسمعیل نے جواب دیا " ابا جان ! اللہ کے حکم کی فورا تعمیل کیجئے ۔ باپ نے فرمایا " رب کا ئنات نے اس عظیم کام میں تجھے میری مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ عرض کیا ” میں حاضر ہوں ، آپ کر گزریئے ۔ چنانچہ کعبہ کی تیاری کے لئے دونوں کمر بستہ ہو گئے۔
روایت کے مطابق کعبہ کی تیاری کا کام شروع ہو گیا۔ حضرت جبرئیل نے رہنمائی کی کہ کعبہ کی بنیاد کسی جگہ رکھی جائے اور اس کے لئے کتنی جگہ گھیری جائے ، اور کس طرح تعمیر کی جائے ۔ حضرت جبرئیل کے بتانے پر باپ اور بیٹے نے کھدائی شروع کی حضرت اسمعیل ایک مزدور کے بھیس میں پتھر لا کر رکھتے، حضرت ابراہیم علیہ السلام پتھر پر پتھر رکھ کر دیوار بلند کرتے۔ پھر بہت وزنی تھے ، اللہ نے انہیں قوت عطا کی تھی ۔ روایت کے مطابق بنیادوں میں کوہ حرا کے پتھر استعمال ہوئے ۔ جب دیوار اتنی بلند ہو گئی کہ اونچائی پر پتھر رکھنا دشوار ہو گیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند سے کہا کہ کوئی ایسا پتھر تلاش کرو جس پر کھڑے ہو کر دیوار بلند کی جاسکے۔
سیدنا اسمعیل ایسا پتھر تلاش کر کے لائے اور اس پتھر پر کھڑے ہو کر دیوار کو بلند کیا۔ اسی کو مقام ابراہیم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس سخت پتھر پر پاؤں کے نشان بن گئے ۔ جب دیوار مرضی کے مطابق بلند ہو گئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمعیل علیہ السلام سے کہا کہ ایک اور عمدہ سا پتھر لے آؤ تا کہ اسے ایک کونے پر نصب کیا جائے اور یہ قاعدہ بنالیا جائے کہ طواف اسی مقام سے شروع ہو۔
حضرت اسمعیل علیہ السلام کو ایک ایسا پتھر مل گیا۔ جس سے روشنی نکل رہی تھی ۔ حضرت اسمعیل علیہ السلام روشنی دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے ۔ حضرت اسمعیل علیہ السلام نے پوچھا ”ابا جان یہ پتھر کونسا ہے؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ یہ وہ پتھر ہے جسے جبرئیل علیہ السلام جنت سے لائے ہیں ۔ اس پتھر کو ایک کونے پر نصب کر دیا گیا۔ طواف کا چکر اسی مقام سے شروع ہوتا ہے۔
آئیے اپنے اندر روح ابراہیمی پیدا کریں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ابوالانبیاء بھی کہا جاتا ہے۔
*****
Comments
Post a Comment