حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ
حضرت نوح علیہ السلام
جب سے دنیا قائم ہوئی حضرت آدم علیہ السلام کی نسل بڑھتی اور پھیلتی گئی ، انسان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا کسی نے نیکی کی راہ اختیار کی تو کسی نے بدی کا راستہ اپنایا جس نے نیکی اختیار کی وہ صراط مستقیم پر رہا، جس نے بدی کا راستہ اختیار کیا ، وہ اللہ کے غضب میں آگیا صراط مستقیم پر چلا مستقیم پر چلنے والوں کی تعداد ہمیشہ کم رہی ، گمراہ انسانوں کی تعداد زیادہ رہی۔
ان گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے اللہ کے نبی آتے رہے، حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے کے بڑے عرصے بعد اللہ نے حضرت نوح علیہ السلام کو بھیجا۔ آپ پر دس صحیفے نازل ہوئے تھے۔ حضرت نوح علیہ السلام اللہ کے نبی تھے ۔ آپ کو آدم ثانی بھی کہتے ہیں۔ آپ کے زمانے میں بھی گمراہی پھیلی ہوئی تھی صرف چند لوگ ہی نیک تھے اکثریت گمراہ لوگوں کی تھی۔ آپ نے اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کے لئے تبلیغ شروع کی ۔ وہ لوگ ہر قسم کی برائیوں میں مبتلا تھے، چوری، بے ایمانی، امانت میں خیانت کرنا، جھوٹ بولنا، شرمناک کام کرنا ، ماں باپ کی خدمت نہ کرنا ، کمزوروں کو حقیر سمجھنا، غریبوں کو دھتکارنا ، جھگڑا کرنا قتل کرنا ، دوسرے کا مال چھیننا۔ عام بات تھی۔
امراء اور سرداروں کا طبقہ غریبوں کو پریشان کرتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ بتوں کو خدا کا درجہ دے رکھا تھا ان کا خیال تھا کہ اگر بت کی پوجا نہ کی جائے تو بت ناراض ہو جا ئیں گے ان کے نزدیک جو بت کی پوجا نہیں کرتا، وہ جاہل اور احمق ہے۔ انہوں نے چار بت بنارکھے تھے جن کے نام ود، سواع یغوث نسر تھے۔
حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کو دعوت حق دیتے اچھے کاموں کے کرنے کا حکم دیتے ، برے کاموں سے روکتے ، وہ کہتے کہ بتوں کی پوجا نہ کرو صرف ایک اللہ کی عبادت کرو ، جو سارے جہاں کا پروردگار ہے، وعظ و نصیحت کی غرض سے ایک روز آپ نے ضیافت کا اہتمام کیا۔ ضیافت میں ہر حیثیت اور طبقہ کے لوگ شریک تھے ۔ آنے والے مہمانوں میں غریب بھی تھے، امیر اور سردار بھی تھے، صاحب حیثیت اور سردار غریبوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ انہیں حقارت سے دیکھتے تھے، نفرت کرتے تھے، لیکن حضرت نوح علیہ السلام نے سب کو یکجا کر دیا۔ لوگوں نے ضیافت کے اہتمام کا سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایابھائیو ہماری قوم کے لوگوں میں بگاڑ پیدا ہو گیا ہے، سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ طاقتور طبقہ کمزوروں پر حاوی ہوتا جا رہا ہے، جو کمزور ہیں وہ بھی ہمارے ہی بھائی ہیں تم غریبوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا پسند نہیں کرتے ہم ان سے نفرت کرتے ہو، ان میں جو بھوکا ہوتا ہے تم کھانا نہیں کھلاتے ، اگر کوئی پیاسا تم سے پانی مانگتا ہے تو تم پانی نہیں پلاتے اگر کوئی بیمار ہو جاتا تو تم ان کی عیادت نہیں کرتے تم اپنے ماں باپ کی خدمت نہیں کرتے ، دوسروں کا مال نا جائز طور پر کھاتے ہو، دوسرے کی ملکیت پر قبضہ کرتے ہو، یہ تمام شیطانی کام ہیں، اس کے علاوہ تم اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے ہو، یہ بت تو تمہاری ہی طرح مخلوق ہیں، اور یہ تو تم سے بھی کمتر ہیں۔
یہ کہاں کی عقلمندی ہے؟ میں تمہیں ایک بڑے عذاب کی خبر دینے آیا ہوں۔“ مہمانوں میں سے ایک سے ایک شخص نے کہا " عجیب شخص ہے، ہمیں کہنے چلا ہے کہ ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں عبادت نہ کریں۔
حضرت نوح علیہ السلام بولے میں یہ نہیں کہتا کہ عبادت چھوڑ دو، عبادت کرو صرف اس ہستی کی جس نے ساری دنیا پیدا کی ہے، جو مارتا ہے اور چلاتا ہے۔
ایک نے کہا: نوح تو ایسا کہتے ہی رہتے ہیں، ہم اپنے معبودوں کے خلاف باتیں سننے کے لئے نہیں آئے ہم تو وہ کرتے ہیں جو ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے آخر میں لوگ مجلس سے اٹھ کر جانے لگے۔
ایک مرتبہ حضرت نوح علیہ السلام ایک راستہ سے گزر رہے تھے کہ ایک بوڑھا نظر آیا وہ بہت لاغر تھا چلنے کی تاب نہیں تھی حضرت نوح علیہ السلام نے دریافت کیا کہ تم اس حال میں راستہ میں کیوں پڑے ہوئے ہو؟ کیا تمہارا کوئی گھر نہیں ہے؟ ۔
بوڑھے نے جواب دیا کہ میرے سات بیٹے ہیں۔ انہوں نے بڑھاپے کے سبب مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔ میرے پاس کھانے کے لئے بھی کچھ نہیں ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام اسے اپنے گھر لے گئے اور کہا کہ تم اس گھر میں رہو۔ میں تمہیں کھانا دیا کروں گا۔ آپ نے دعا کی تو ایک اجنبی شخص گھر میں داخل ہوا، اس کے ہاتھ میں ایک خوان تھا اس میں ہر قسم کے کھانے تھے اس نے حضرت سے فرمایا کہ یہ کھانا میں آپ کے مہمان کے لئے لایا ہوں اسے کھلا دیں، اس نے کہا کہ اللہ کسی کو کبھی بھوکا نہیں سملاتا ۔“ وہ بوڑھا حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لے آیا۔
https://draft.blogger.com/u/2/blog/post/edit/5523073463240749121/7384977472559070159
ایک روز ہدایت کی غرض سے گھر سے نکلے اور ایک بلند مقام پر کھڑے ہو گئے اور بولے لوگو میں نیکی کی طرف بلا رہا ہوں، اللہ نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے تا کہ میں تم لوگوں کو ہدایت کروں ، میرا کہا مان لو تو فائدے میں رہو گے۔ تم لوگ ماں باپ کی خدمت کیا کرو انہیں گھر سے نہ نکالو، انہیں تکلیف مت دو، ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرو، یتیموں ، بیواؤں اور محتاجوں کی مدد کرو، بیماروں کی عیادت کرو ، ہر کمزور طاقتور کا محتاج ہوتا ہے، بات بات پر لوگوں کی جان نہ لو۔ یہ کام خدا کو پسند نہیں ہے اگر تم سب اللہ کے احکام پر عمل کرو تو ، وہ تمہارے لئے کثرت سے تم پر بارش بھیجے گا۔ مال اور اولاد میں تو کیا دے گا۔ تمہارے لئے نہریں بہائے گا۔
حضرت نوح علیہ السلام ہر ایک شخص کے پاس جا کر ہدایت کرتے کبھی کبھی اجتماع سے بھی خطاب کرتے ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ حضرت نوح علیہ السلام ایک راستہ سے گزر رہے تھے تو کچھ لوگوں نے آپ کا راستہ روک لیا اور مارنے کے درپے ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے پتھر بھی برسائے ایک شخص آگے آیا لوگوں سے کہا کہ تم اسے کیوں مارتے ہو؟ اس نے تمہارا کیا نقصان کیا ہے؟ تو لوگوں نے کہا کہ یہ ہمارے بتوں کے خلاف باتیں کرتا ہے، جبکہ ہم عبادت کرتے ہیں ۔
ایک بولا کہ یہ کہتا ہے اللہ نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے ایک اور شخص نے کہا کہ یہ کہتا ہے کہ میں نبی ہوں یہ تو ہم ہی جیسا انسان ہے یہ کھاتا پیتا کام کرتا ہے اس کے پاس دولت بھی نہیں ہے خدا کو اگر نبی بنانا ہوتا تو کسی سردار اور امیر آدمی کو نبی بناتا۔
حضرت نوح علیہ السلام نے جواب دیا میرے رسول ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ میں تمہارے ہی معاشرے کا فرد ہوں لیکن اس کے باوجود میں تمہاری طرح بے جان بتوں کو نہیں پوجتا۔ دوسرا بڑا ثبوت یہ ہے کہ میں تم لوگوں کو نصیحت کر رہا ہوں لیکن اس کا کوئی معاوضہ تم سے طلب نہیں کرتا ۔ میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے میں تو یہ کہتا ہوں کہ کسی پر ظلم نہ کرو، میں تو تم سب کو نیکی اور بھلائی کی طرف بلا رہا ہوں میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔
ان میں سے ایک نے کہا، نوح بادشاہ یا سردار بننا چاہتا ہے، تا کہ اسکی عزت ہو۔
حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا: ”تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے کہ پتھروں کو پوچ رہے ہو۔ اے قوم اللہ کی عبادت کرو، وہی عبادت کے لائق ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ جب تم اللہ پر ایمان لاؤ گے تو تم برائی سے دور رہو گے۔ نہ میں بادشاہ بننا چاہتا ہوں، نہ سردار، میں تو صرف نیکی کی طرف بلا رہا ہوں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے چاند اور سورج پیدا کئے ، چلنے کے لئے فرش بنایا اور تمہیں نعمتیں دیں۔
حضرت نوح علیہ السلام نے جب یہ باتیں کہیں تو لوگوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں ، ایک لفظ بھی سننے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔
ایک موقع پر حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اب نادانو یہ کیوں نہیں سمجھتے ہو، یہ دنیا تو ایک آزمائش کی جگہ ہے تمہارے سامنے اچھائی اور برائی دونوں ہے ۔ اے قوم میں تم کو آنے والے دن سے ڈراتا ہوں اس دن کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا دیکھو جو غریب ہیں مجھ پر ایمان لائے ہیں لیکن تمہیں دولت کا غرور ہے۔ اے قوم غریبوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ہنگوں اور بھوکوں کا خیال رکھو۔
ان میں سے ایک سردار نے غرور اور تکبر سے کہا۔ فرض کرو کہ ہم تمہاری بات مان لیتے ہیں ، کیا تم پر ایمان لا کر غریب اور دو ٹکے کے لوگوں کے ساتھ مل جائیں جو تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں ، ایسا نہیں ہو سکتا۔
آپ کو ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ، مذاق اڑاتے ، آوازے
کتے ، منہ پھیر لیتے ، گالیاں دیتے ، مارنے کو کوشش کرتے بلکہ ایک روز مارا پیٹا بھی تھا۔ لیکن آپ نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا بلکہ اپنا کام جاری رکھا۔ آپ کی بیوی اور آپ کا بیٹا بھی منکرین اور کافروں میں تھا۔
حضرت نوح علیہ السلام نے دعا کی اے رب میرے پروردگار میں نے اپنی قوم کو رات دن سمجھایا ، حق کی طرف بلایا میرے بلانے پر وہ زیادہ بھاگتے رہے۔ میں نے اعلانیہ اور خفیہ سمجھایا تو انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو وحی بھیجی کہ ایک کشتی بناؤ اور ظالموں کے بارے میں کچھ نہ بولو۔
اللہ کے حکم کے مطابق آپ نے کشتی تیار کرنا شروع کی کچھ لوگوں نے مذاق کرتے ہوئے پوچھا اے نوح کیا بنا رہے ہو؟
آپ نے بتایا کہ میں ایک کشتی تیار کر رہا ہوں، کیونکہ اللہ کی طرف سے عذاب آنے والا ہے اللہ نے جو ڈھیل دے دی ہے وہ ختم ہو رہی ہے، جب وقت آئے گا ہر طرف پانی ہی پانی نظر آئے گا صرف وہی بچے گا جو اس کشتی میں سوار ہو گا جو بت پرستی سے تو بہ کرے گا، گناہوں سے معافی مانگے گا اسی کو اس کشتی میں جگہ ملے گی۔
لوگ بولے، اے نوح یہ زمین تو خشک ہے ایسے آثار بھی نہیں ہیں کہ اتنا پانی ہو جائے کہ کشتی تیرنے لگے، نوح کا تو دماغ ہی چل بسا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام اس قسم کی باتوں سے بالکل مایوس ہو چکے اور اصلاح کی کوئی امید ہی نظر نہیں آرہی تھی ، جب کشتی بن کر تیار ہوگئی تو لوگ کشتی میں غلاظت پھینک دیتے ۔ کشتی میں کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں غلاظت نہ ہو۔ کافر غلاظت کا پھیلانے کے لئے کشتی کے اندر جایا کرتے تھے۔ یہ ان کا معمول بن چکا تھا۔ یک مرتبہ ایک کوڑھ کا مریض بھی اپنے ناپاک مقصد کے ساتھ کشتی کے اندر گیا۔ اس کے سڑے ہوئے جسم کے ایک حصہ پر کچھ غلاظت لگ گئی، کچھ دیر بعد اس نے دیکھا کہ جہاں غلاظت لگی تھی وہ حصہ اچھا ہو گیا۔
اب اسے حیرت ہوئی کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ آخر غلاظت سے کس طرحشفا ہو سکتی ہے؟ پھر وہ کشتی کے اندر داخل ہوا اور غلاظت پوری طرح سارے جسم پر مل لیا تو دیکھا کہ وہ بالکل تندرست ہو گیا۔ یہ بات کوڑھ کے مریضوں کے اندر پھیل گئی تو سب نے کشتی کے اندر داخل ہو کر غلاظت ملنا شروع کر دیا۔ اس طرح پوری ستی پاک صاف ہو ری کشتی پاک صاف ہوگئی۔
حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی اے رب لوگوں نے میرا کہنا نہیں مانا ایسے شخصوں کی پیروی کی جن کے مال اور اولاد نے ان کو زیادہ ہی نقصان پہنچایا ان کافروں میں سے زمین پر ایک باشندہ بھی مت چھوڑ ، اگر آپ ان کو روئے زمین پر رہنے دیں گے ان کی اولاد بھی کافر ہی ہوگی۔
آپ کی دعا قبول ہوئی، اللہ کا عذاب آچلا ۔ گھر کے تنور سے پانی اہل پڑا۔ پانی کا ریلا تیزی سے بہنے لگا۔ جس جگہ سے سے پانی ابل پڑا وہ جگہ کوفہ کی ایک مسجد تھی ، جس کا نام مسجد انبیاء ہے۔ دوسری طرف آسمان پر خوفناک سیاہ بادل چھانے لگے۔
حضرت نوح علیہ السلام نے دیکھا کہ زمین سے چشمے پھوٹ رہے ہیں، حضرت نوح علیہ السلام نے کہا کہ یہ عذاب کی علامت ہے۔ کافر کہنے لگے کہ طوفان تو آتے ہی رہتے ہیں، بارشیں ہوتی رہتی ہیں، یہ تو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کچھ دیر بعد موسم بدل جائے گا۔
دیکھتے ہی دیکھتے ہوا کا تیز جھونکا آیا جس سے ہر چیز ہل گئی پھر پانی برسنا شروع ہوا بارش میں اتنی شدت تھی جیسے کہ آسمان نے اپنے تمام دروازے کھول دیئے ہوں ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے ایمان والوں سے کہا کہ کشتی میں سوار ہو جاؤ۔
اللہ ہرم۔ ند نے فرمایا کہ ہر قسم کے جانوروں کا جوڑا بھی کشتی میں سوار کرالو۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی ہر جانور کا جوڑا سوار کرالیا گیا۔ کشتی میں ایک علیحدہ جگہ پر سب جانوروں کو بند کر دیا گیا۔ طوفان چلنے لگا بارش سے ندی نالے اور زمین پر پانی بھر گیا۔ پھر زمین کے ہر حصہ میں پانی بہنے لگا اب حضرت نوح علیہ السلام کا جہاز تیرنے لگا پانی اونچا ہو رہا تھا ت نوح علیہ السلام کی نظر جب بیٹے پر پڑی تو آواز لگانے لگے : بیٹا ہاری اس کشتی میں سوار ہو جاؤ تمہاری جان بچ جائے گی اب کافروں کا ساتھ چھوڑ دو۔
تو بیٹے نے جواب دیا کہ میں پہاڑ کی اونچی چوٹی پر چڑھ جاؤں گا، پانی وہاں تک نہیں پہنچے گا۔
تب حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ سے اپنے بیٹے کے بارے میں سفارش کی کہ میرا بیٹا ڈوب رہا ہے یہ تو میرے ہی خاندان کا ہے، تیرا وعدہ سچا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ وہ تیرے خاندان والوں میں سے نہیں ہے تیرے گھر والے تو وہ ہیں جو تجھ پر ایمان لائے ہیں۔
روایات کے مطابق بارش مسلسل چالیس دن تک ہوتی رہی۔ جو کچھ زمین پر تھا سب ڈوب گیا۔ کافروں کا کام تمام ہوا جو لوگ حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لائے تھے وہ تھے وہ کشتی میں سوار ہو کر بچ گئے۔ کشتی کوہ جودی پر جا کر وہ ٹھہری ۔ جسے ادارات بھی کہتے ہیں ۔ کشتی میں سب سوار تھے اسی دوران حضرت نوح علیہ السلام کو ایک فاختہ نظر آئی۔ اس کی چونچ میں زیتوں کےدرخت کا پتا تھا یہ امن و سکون کی علامت تھی یعنی پانی اتر چکا ہے۔ کوہ جودی یا ارارات مشرقی ترکی میں ہے۔ یہ سولہ ہزار نو سوفٹ بلند ہے جو برف سے ڈھکی رہتی ہے روس کی سرحد بھی اس سے ملتی ہے اس پہاڑ کو نا قابل تسخیر خیال کیا جاتا تھا لیکن ۱۹۲۹ء میں جرمن ماہر طبیعات جون جیکب نے دونا کام کوششوں کے بعد اسے سر کر لیا۔
کچھ عرصہ پہلے ہزاروں سال کی جمی ہوئی برف کا تودہ گرنے سے کشتی نوح علیہ السلام کا ایک حصہ برف سے نکلا۔ کئی ہوا بازوں نے اس کی تصویریں لیں ایک اور معلومات کے مطابق ۱۹۲۹ء میں ماہر آثار قدیمہ دولی اور اس کے ساتھی نے عراق کے قریب آر کے مقام پر طوفان نوح کے آثار دریافت کئے۔ انجیل مقدس کتاب پیدائش کی روایت کے مطابق طوفان نوح کا واقعہ وادی دجلہ و فرات سے متعلق ہے۔ عراق میں قدیم زبانوں میں لکھے گئے کتبے دریافت ہوئے۔ ان میں ایک زبردست طوفان کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے۔ ایک ماہر نے دعوی کیا ہے کہ اس نے شہر آر کی سب سے نچلی سطح میں طوفان نوح کے آثار پائے ہیں۔ عیسائیوں اور یہودیوں کی الہامی کتب میں ارارات کا ذکر طوفان نوح کے حوالے سے آیا ہے۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ساتویں مہینہ کے ستر ہویں دن ستی نوح ارارات نامی پہاڑ دن کشتی نوح ارارات نامی پہاڑ پر آ لگی ۔
*****
Comments
Post a Comment