حضرت سلیمان علیہ السلام کا قصہ
حضرت سلیمان علیہ السلام
حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ کے پیغمبر تھے اور بادشاہ بھی۔ آپ حضرت داؤد کے بیٹے تھے۔ باپ کی وفات کے بعد تخت کے وارث ہوئے آپ کے پاس ایک انگوٹھی تھی، جس میں اللہ نے ایک خاص خوبی رکھی تھی اس معجزاتی انگوشی کی بدولت آپ کو بادشاہی ملی ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ جس انگوٹھی کی بدولت آپ جن وانس و حیوانات پر حکومت کرتے تھے وہ گم ہوگئی تھی ، اس کا کم ہونا تھا کہ آپ تخت سے محروم ہو گئے جس کی وجہ سے ہاتھ سے سلطنت نکل گئی ۔
یہ انگوٹھی شیطان کے ہاتھ لگ گئی کچھ عرصہ بعد شیطان کے ہاتھ سے دریا میں گرگئی ، انگوٹھی مچھلی کا نوالہ بن گئی، ایک مرتبہ مچھیروں نے مچھلی پکڑنے کے لئے دریا میں جال ڈالا تو یہ مچھلی بھی جال میں آگئی، مچھیرے بازار لے گئے اور بیچ دیا حضرت سلیمان کے خادموں نے مچھلی خریدی اتفاق کی بات ہے یہی مچھلی خادموں کے ہاتھ لگ گئی مچھلی محل میں لائی گئی مچھلی کو صاف کر نے کے لئے جب پیٹ چاک کیا گیا تو اس میں گم شدہ انگوٹھی مل گئی ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی قسمت جاگ گئی انگوٹھی کی بدولت آپ دوبارہ سلطنت کے وارث بن گئے ۔
بتایا جاتا ہے کہ انگوٹھی پر اسم اعظم کندہ تھا۔ جنات بھی آپ کے تابع تھے آپ اپنے بیشتر کام جنوں سے بھی لیا کرتے تھے، حضرت سلیمان علیہ السلام میں ایسی ایسی حیرت انگیز خوبیاں تھیں جو کسی بادشاہ میں نہیں تھیں اور نہ قیامت تک کسی کو نصیب ہوگی ۔
ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہا السلام نے اللہ سے دعا مانگی تھی کہ میرے بعد آنے والوں کو ایسی حکومت نصیب نہ ہو۔ آپ کی دعا قبول ہوئی آپ انسانوں، جنوں حیوانوں اور ہوا پر حکومت کرنے لگے تھے
حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے باپ حضرت داؤد علیہ السلام کی خواہش کے مطابق فلسطین میں ایک عبادت خانہ تعمیر کیا۔ اگر چہ تعمیر کرنے کا ارادہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی زندگی میں کیا تھا، لیکن زندگی میں ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی۔ تاہم انہوں نے اپنی خواہش کے مطابق عبادت خانہ کی جگہ منتخب کر دی تھی ۔
https://abdulbaseerch.blogspot.com/2025/04/blog-post_6.html
حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے دور حکومت میں عبادت خانہ تعمیر کرایا۔ اس لئے اس عبادت خانہ کا نام ہیکل سلیمانی پڑا۔
ہیکل سلیمانی کی تعمیر ۱۰۱۲ قبل مسیح میں ہوئی ۔ تعمیر کا کام سات سال تک جاری رہا۔ روایت کے مطابق بہت بھاری تعداد میں لوگوں نے تعمیر کے کام میں حصہ لیا۔ بعض روایات کے مطابق دولاکھ مزدوروں نے کام کیا۔ اسرائیلی روایت میں حیرت انگیز بات یہ پائی جاتی ہے کہ تعمیر کے دوران جنوں نے بھی حصہ لیا۔ وہ دور دراز مقامات سے پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے تھے اور دیواریں چنتے تھے۔
تاریخ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس عبادت خانہ کی لمبائی نوے فٹ، چوڑائی تمھیں فیٹ اور اونچائی پینتالیس فٹ تھی۔ اس کے اندر ایک مخصوص جگہ بنائی گئی تھی جہاں تابوت سکینہ رکھا گیا۔ یہ ایک صندق کی شکل میں تھایا یہ ایک صندق تھا۔ یہ بہت متبرک مانا جاتا تھا، اس میں یہودیوں کے تبرکات رکھے گئے تھے۔
قرآن کریم میں اس کے کچھ ارشادات ملتے ہیں، وہ یہ کہ جب اسرائیلوں کے ہاتھوں سے یہ متبرک صندوق نکل گیا تو فرشتے اس کی حفاظت پر مامور تھے۔ اس میں آل موسیٰ اور آل ہارون علیہ السلام کی نشانیاں تھیں۔ اس لئے ان کے نزدیک یہ صندوق بہت متبرک مانا جاتا تھا۔ روایت ہے کہ عصائے موسیٰ بھی اسی صندوق میں تھا۔ یہ عصا حضرت شعیب علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کیا تھا۔
ان میں پتھر کی وہ تختیاں بھی تھیں جو طور سینا پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی تھیں۔ اس میں نوادرات کے نسخے بھی تھے۔ جب طالوت اسرائیلیوں کا بادشاہ بنا تھا تو یہ صندق دوبارہ بنی اسرائیل کے ہاتھ آیا تابوت سکینہ حاصل کرنے کے لئے طالوت کو جنگ لڑنا پڑی۔ یہ جنگ کافروں سے لڑی گئی۔ اس جنگ میں طالوت نے اللہ تبارک تعالٰی سے دعا مانگی تھی کہ اے رب مجھے صبر کرنے کی صلاحیت عطا کر ، مجھے ثابت قدم رکھ اور کافروں پر فتح دے۔
تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ فلسطین پر ہر زمانے میں حملے ہوتے رہے۔ کبھی بابل نے تباہی مچاہی بھی رومیوں نے حملہ کیا، عراق کا قدیم نام بابل تھا۔ جس نے بھی حملہ کیا حضرت سلیمان علیہ السلام کا تعمیر کیا ہوا عبادت خانہ ہیکل سلیمانی کو بھی نشانہ بناتا رہا۔
ایک مرتبہ بابل کا بادشاہ بخت نصر نے فلسطین پر حملہ کیا اور ہیکل سلیمانی کو تاخت و تاراج کیا اور اسرائیلوں کا قتل عام کیا۔ بخت نصر فلسطین سے دس لاکھ یہودیوں کو کھدیڑ کر عراق لے گیا اور وہاں غلام بنایا۔ بخت نصر کے عہد کے بعد پھر یہ قوم فلسطین میں آکر آباد ہوگئی۔ رومی بھی اکثر فلسطین پر حملہ کرتے رہے۔
ہیکل سلیمانی کے جو بھی نشانات تھے جملوں کی زد میں آکر مٹتے رہے، آخر میں روم کے ایک بادشاہ نے ٹس نے ہیکل سلیمانی کو آگ لگا کر بالکل تباہ کر دیا۔ حتی کہ اس کے وجود کی دھندلی نشانی بھی نیست و نابود ہو کر رہ گئی۔ یہودیوں کا دعوی ہے کہ ہیکل سلیمانی کی زمین پر مسجد اقصیٰ تعمیر کی گئی۔ اس لئے یہ یہودیوں کی ملکیت ہے۔ آج بھی یہ تنازعہ ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے بیت المقدس کی سرزمین پر آج تک جنگ جاری ہے۔ اسرائیلی مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ پر یقین کامل رکھتے تھے اور ہر معاملہ میں اللہ پر بھروسہ کرتے تھے ۔ آپ ہمیشہ اللہ کا کرشمہ اور اس کی کارسازی دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے دور حکومت میں ایک بڑھیا کے ہاں دو مسافر آئے اور کہنے لگے کہ ہمیں بھوک لگی ہے اگر تمہارے پاس کھانا ہے تو دے دو، تا کہ ہم کھا کر اپنی بھوک مٹائیں۔ ہم کھانے کا معاوضہ ادا کریں گے۔ بڑھیا بڑی غریب تھی وہ بولی میرے پاس تھوڑی سی گندم ہے میں پسوا کر لاتی ہوں تم کچھ دیر انتظار کرو، کچھ دیر بعد بڑھیا جب آٹالا رہی تھی تو راستہ میں زور دار ہوا چلنی شروع ہوئی آٹا ہوا لے اڑی بڑھیا کے ہاتھ خالی ہو گئے بڑھیا نے رونا شروع کیا ، اتفاق کی بات ہے کہ راستہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام مل گئے ۔ آپ اس زمانہ میں کم سن تھے آپ نے رونے کا سبب دریافت فرمایا تو وہ بولی کہ میں گندم پسوا کر آٹا لا رہی تھی کہ اچانک ہوا چل پڑی آٹا اڑ گیا۔ آپ نے فرمایا اس میں رونے کی کیا بات ہے میرا باپ بادشاہ ہے جا اس سے فریاد کر ۔
بڑھیا حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس فریاد لے کر گئی ، حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا میں کیا کر سکتا ہوں اللہ کے حکم سے چلتی ہے اگر کوئی انسان ظلم کرتا تو میں انصاف کرتا ہوا کے ساتھ کس طرح معاملہ کروں پھر اپنے ایک خادم سے کہا کہ دو بوری اناج بڑھیا کے حوالے کرو ۔ بڑھیا اناج لے کرواپس جارہی تھی تو راستہ میں پھر سلیمان سے ملاقات ہو گئی۔ آپ نے بڑھیا سے دریافت کیا اس نے بتایا کہ بادشاہ نے دو بوری اناج دیا ہے وہ میں لئے جارہی ہوں۔ حضرت سلیمان نے اس سے کہا کہ بادشاہ کے پاس دوبارہ واپس جا اور گزارش کر کہ مجھے وہی آٹا چاہئے جو ہوا اڑا کر لے گئی ہے بڑھیا نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے کہنے پر عمل کیا بادشاہ کے پاس گئی اور وہی بات کہی جو سلیمان نے بتائی تھی ۔
بادشاہ بڑھیا کی بات سن کر پریشان ہو گیا اور سوچنے لگا کہ میں ہوا سے یہ بات کس طرح کہوں پھر بادشاہ نے بڑھیا سے دریافت فرمایا کس کے کہنے پر اس طرح کی بات کی ہے بڑھیا نے جواب دیا کہ راستے میں ایک کم سن لڑکا ملا تھا اسے تمام ماجرا سنایا تو اس نے مجھے سکھا کر بھیجا ہے حضرت داؤد علیہ السلام سمجھ گئے کہ سوائے سلیمان کے دوسرا کوئی اس طرح کی بات نہیں کر سکتا۔ آپ نے سلیمان کو دربار میں بلا کر دریافت فرمایا کہ میں کس طرح ہوا سے آٹا لے کر دوں یہ بات تو میرے لئے نا ممکن ہے۔
سلیمان نے بادشاہ سے کہا کہ آپ پیغمبر ہیں اور بادشاہ بھی، آپ دعا کریں تو وہی آٹا واپس آسکتا ہے ۔ آپ نے دعا کی اللہ نے آپ کی دعا سن لی اللہ نے ہوا کو انسانی شکل میں آپ کے پاس بھیجا، حضرت داؤد علیہ السلام نے ہوا ہے دریافت کیا کہ اس بڑھیا کا آٹا کیوں اڑا کر لے گئی ہوا نے جواب دیا کہ اللہ کا یہی حکم تھا۔ پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے ہوا سےپوچھا کہ اس بارے میں جو معلوم ہے ہمیں بتاؤ، ہوانے پورا واقعہ سناتے ہوئے کہا۔
سمندر میں ایک کشتی آرہی ہے اس میں کچھ تاجر بیٹھے ہوئے ہیں کشتی میں ایک سوراخ ہو گیا جس سے کشتی کے ڈوب جانے کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔ کشتی میں بیٹھے ہوئے تاجروں نے خدا سے منت مانی کہ اے خدا اگر کشتی ڈوبنے ۔ سے بچ گئی تو ہم اس کا آدھا حصہ داؤ د بادشاہ کے دربار میں پیش کریں گے تا کہ وہ غریبوں میں تقسیم کریں ۔ ان کی دعا قبول ہوئی ، ہوا نے بتایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ اس بڑھیا کا آٹا اڑا کر کشتی کا سوراخ بند کردوں میں نے ایسا ہی کیا ، یہ گفتگو جاری تھی کہ اسی دوران وہ تاجر بھی نفع کا مال لے کر دربار میں حاضر ہوئے اور آدھا مال غریبوں میں تقسیم کرنے کے لئے پیش کر دیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے مال کے دو حصے کئے ایک حصہ بڑھیا کو دیا اور سلیمان کو شاباشی دی ، کیوں کہ ان کی کوششوں سے خدا کی مصلحت کا راز معلوم ہوا۔
ملکہ سبا
سبا ایک ملک کا نام تھا شاید قدیم زمانے میں سبا یمن کا نام ہو یہ کہنا مشکل ہے ملک سبا میں ایک عورت حکومت کرتی تھی کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ
حضرت سلیمان علیہ السلام کا دربار لگا ہوا تھا ، اس دربار میں ہر قسم کے چرند پرند موجود تھے لیکن ان جانوروں کے درمیان ہد ہد موجود نہیں تھا حضرت سلیمان علیہ السلام کو ہدہد کے حاضر نہ ہونے پر کچھ پریشانی ہوئی وہ چاروں طرف نظر دوڑا رہے تھے اور ہد ہد کو تلاش کر رہے تھے۔ اچانک ہر ہر حاضر ہو گیا حضرت سلیمان علیہ السلام نے دیر تک غیر حاضر رہنے کی وجہ دریافت کی ہد ہد نے بتایا کہ ملک سبا میں ایک عورت حکومت کرتی ہے وہ اللہ کے دین پر یقین نہیں رکھتی وہ آتش پرست ہے اس کے پاس کثیر فوج ہے وہ عالی شان محل میں رہتی ہے خدمت کے لئے بے شمار غلام ہر وقت حاضر رہتے ہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہد ہد کی باتیں غور سے سنیں اور کہا کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو سچ ہے یا جھوٹ چنانچہ آپ نے ملکہ سبا کے نام ایک رقعہ لکھا آپ نے سب سے پہلے بسم اللہ لکھا اور یوں تحریر کیایہ خط سلیمان کی طرف سے ہے۔ میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو سب سے بڑا مہربان اور بہت بڑا رحم والا ہے تم اپنی سلطنت پر غرور اور سرکشی نہ کرو، پہلے تم اللہ کی فرمانبرداری کرنے کا عہد کرو پھر میرے پاس چلی آؤ۔
آپ نے خط ہدہد کے حوالے کیا اور بولے کہ یہ خط اس کے سامنے ڈالا دو ہر ہر نے ایسا ہی کیا ملکہ نے خط اٹھا کر پڑھا اور درباریوں سے کہا
اور پڑھ کر سنایا اور ان سے رائے طلب کی کہ اب کیا کرنا چاہیئے دربار میں حاضر تمام لوگوں نے ایک رائے ہو کر کہا، ہم طاقتور ہیں اس لئے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم سلیمان کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ملکہ سبا نے کہا یہ تو ٹھیک ہے اس میں کوئی شک نہیں ہم کمزور تو نہیں ہیں لیکن ہمیں سوجھ بوجھ سے کام لینا چاہئے ان سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لئے میں تھے تحائف بھیجنا چاہتی ہوں اگر انہوں نے ہمارا تحفہ قبول نہ کیا تو میں سمجھوں گی کہ وہ پیغمبر ہیں، پیغمبروں کو مال و دولت کی ہوس نہیں ہوتی ، اگر انہوں نے تحفہ قبول کیا تو میں سمجھوں گی کہ وہ صرف بادشاہ ہیں بادشاہوں کو ملک گیری کی ہوس ہوتی ہے میں اس بات سے خوف زدہ ہوں کہ بادشاہ جس ملک میں داخل ہوتے ہیں وہاں تباہی مچا دیتے ہیں ہر چیز کو تباہ برباد کر دیتے ہیں۔
ملکہ نے یہی سوچ کر تحفے تحائف بھیجے تحفوں کا سامان لے کر خادم حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میرا مقصد یہ نہیں جو ملکہ نے سمجھا ہے میرے پاس دولت و حشمت کی کمی نہیں ہے خدا نے مجھے بہت کچھ دے رکھا ہے میں چاہتا ہوں کہ ملکہ میرے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میرے پاس چلی آئے اگر اس نے میرے پاس آنے سے انکار کیا تو میں لشکر لے کر پہنچ جاؤں گا ملکہ کو رسوائی اٹھانی پڑے گی خادم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کا پیغام ملکہ تک پہنچا دیا۔ ملکہ نے روانگی کے لئے یاری شروع کردی۔
آپ کو ملکہ کی روانگی کی خبر مل چکی تو آپ نے جنوں سے پوچھا کہ ملکہ کو یہاں کون لاسکتا ہے ان میں سے ایک جن نے کہا کہ میں پلک جھپکتے ہی ملکہ کو حاضر کر سکتا ہوں ، آپ نے اجازت دی تو ایک جن تخت سمیت ملکہ سبا کولے آیا ، حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ کا شکر ادا کیا اور حکم دیا کہ اس تخت کی شکل بدل دی جائے ، جب ملکہ دربار میں پہنچی تو اس سے پوچھا کہ کیا تیرا تخت بھی ایسا ہی ہے اس نے کہا کہ یہ تو وہی ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے محل کو حیرت انگیز طریقے سے بڑی حکمت کے ساتھ تعمیر کیا محل کا فرش شیشے سے تیار کیا فرش کے نیچے پانی کی نہریں بہہ رہی تھیں ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے یہ فرش نہیں بلکہ پانی ہی پانی ہے جب ملکہ سبائل کے فرش پر پاؤں رکھنے ہی والی تھی کہ پیچھے ہٹ گئی اور اپنے پائنچے اوپر چڑھا لئے ایک خادم نے ملکہ کی حرکت دیکھ کر کہا کہ یہ پانی نظر آ رہا ہے لیکن پانی نہیں ہے بلکہ فرش ہے پائینچے اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے ملکہ یہ عجوبہ دیکھ کر دنگ رہ گئی اور کہنے لگی۔
اے پروردگار میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے میں سلیمان کی بات مانتی ہوں اللہ ہی تمام کا ئنات کا رب ہے۔
ملکہ سبا حضرت سلیمان پر ایمان لے آئی اور آپ سے نکاح کر لیا۔
ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے بھاری لشکر کے ساتھ راستے سے گزر رہے تھے اس راستے پر چیونٹیاں چل رہی تھیں۔ حضرت سلیمان علیہالسلام کی سواری دیکھ کر چیونٹیوں کے سردار نے چیونٹیوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے لشکر کے ساتھ گزر رہے ہیں ایسا نہ ہو کہ تم سب حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کے مصاحبوں کے قدموں کے نیچے آ کر روندے جاؤ تم سب اپنی حفاظت کے لئے بلوں کے اندر گھس جاؤ۔ چیونٹیوں کی یہ بات سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام مسکرائے اور خدا کا شکر ادا کیا۔
بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام عجیب و غریب حالت میں وفات پاگئے آپ علیہ السلام ایک مقام پر عصا ٹیک کر کھڑے رہے اور اسی حالت میں آپ کی روح پرواز کر گئی لیکن آپ گرے نہیں، آپ کی وفات سے سب بے خبر تھے جب عصا کو دیمک چاٹ گئی تو آپ گر پڑے اس وقت جنوں چرند اور پرند کو آپ کی وفات کی خبر ہوئی۔
**********
Excellent
ReplyDeleteBht khooob
ReplyDelete