حضرت زکریا علیہ السلام کا قصہ
حضرت ذکریا علیہ السلام
حضرت زکریا علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ نبی تھے آپ کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھا بھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو بات انسان کے وہم و گمان میں یا اس کے اختیار میں نہیں ہوتی وہ قدرت خداوندی سے ہو جاتی ہے اللہ ہر شے پر قادر ہے وہ مردے کو زندہ کرتا ہے زندہ کو مردہ ، حضرت زکریا علیہ السلام کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا وہ کچھ اسی طرح کا ہے حضرت زکریا علیہ السلام اللہ کے نبی تھے ، رات و دن اللہ کے ذکر میں مشغول رہتے تھے، وہ اللہ کی یاد میں کبھی غافل نہیں رہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کا معاشرے میں مذہبی اعتبار سے بہت بلند مقام تھا۔
واقعہ یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل فلسطین پر قابض ہوئے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد بارہ قبیلوں میں تقسیم ہو گئی ان میں سے ایک قبیلہ ایسا تھا جو بہت زیادہ مذہبی کاموں میں منہمک رہا وہ مقدس عبادت گاہ کے صحنوں اور کوٹھریوں کو صاف ستھرا رکھتا ، عبادت کے لئے لوگوں کو بلاتا قربانی کرتا ، لوگوں کو نیکی کی طرف بلاتا اور برائی سے روکتا تھا اس قبیلہ میں ابیاہ نامی ایک پاکباز شخص گزرا۔ حضرت زکریا اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے حضرت زکریا علیہ السلام بھی عبادت خانے کی خدمت کرتے تھے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے، اس لئے اولاد کی امید بھی نہیں رکھتے تھے ، اس محرومی کے باوجود وہ جانتے تھے کہ اللہ بڑا کارساز ہے اس کے احاطہ اختیار سے کوئی چیز باہر نہیں وہ سب کچھ کر سکتا ہے، اسی خیال سے وہ مایوس نہیں ہوئے آپ کو سہارے کی ضرورت تھی، وارث کی ضرورت تھی وہ چاہتے تھے کہ نیکی نسل در نسل چلے اسی لئے ان کی خواہش تھی کہ ایک صالح اولاد ہو جو اللہ کی بندگی بجالائے۔
حضرت زکریا علیہ السلام نے اولاد کے لئے یوں دعا کی قرآن کریم میں ارشاد ہے، جب زکریا نے اپنے رب کو پکارا کہ اے پروردگار مجھے اکیلا نہ چھوڑ ، بہترین وارث تو تو ہی ہے پس ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا اور اس کی بیوی کو درست کر دیا یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے تھے خواہش اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے ہمارے آگے سجدہ کرتے تھے۔
اللہ نے حضرت زکریا سے قبل آنے والے پیغمبروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح ہم اپنے نیک بندے کو صالح اولا د عطا کرتے ہیں وہ کسی طرح نیکی کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔
ہم نے حضرت ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب جیسی اولاد عطا کی ہر ایک کو راہ ہدایت دکھائی ، تو وہی راہ تھی جو حضرت نوح کو دکھائی تھی اور اسی کی نسل سے ہم نے داؤد ، سلیمان، ایوب ، یوسف ، موسیٰ اور ہارون کو ہدایت بخشی اسیطرح ہم نیکو کاروں کو ان کی نیکی کا بدلہ دیتے ہیں اور اس کی اولاد سے زکریا، یچی عیسی ، الیاس کو راہ دکھائی۔
یہ سب صالح یعنی نیک بندے تھے یہ سب کے سب اللہ کے نبی تھے اللہ کی عبادت کرتے تھے لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے تھے۔
حضرت زکریا کا دامن شرک سے پاک صاف رہا۔
ان پیغمبروں کے ناموں کا بیان یہ مقصد ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی طرح ایک خاص مدت تک نسل در نسل انبیا کو مبعوث کرتا رہا یہ سب کے سب نیکی ہی کی دعوت دیتے رہے اس لحاظ سے حضرت زکریا اولاد سے کسی طرح محروم رہتے۔
حضرت زکریا علیہ السلام گہری خواہش کے ساتھ دعا کرتے رہے اللہ تعالی نے آپ کی دعا سن لی اور بشارت ہوتی ہے کہ اے زکریا ہم تجھے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام بھی ہو گا۔
عرض کیا، اے پروردگار میرے ہاں کیسے بیٹا ہوگا، جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بوڑھا اور کمزور ہو چکا ہوں۔
جواب ملا ایسا ہی ہوگا تیرا رب فرماتا ہے کہ یہ میرے لئے ذراسی بات ہے اس سے پہلے تجھے پیدا کر چکا ہوں جبکہ تو کوئی چیز نہ تھا۔
زکریا نے کہا میرے لئے کوئی نشانی مقرر کر دے۔
اللہ نے فرمایا نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے اشارے میں
بات کیا کرو اس دوران اپنے رب سے رجوع کرو، اور اپنے رب کو بہت یاد کر و صبح و شام اس کی تسبیح کرو۔
پھر وہ حجرے سے باہر آئے اور قوم سے اشارے میں ہدایت کی کہ صبح و شام تسبیح کرو۔
حضرت ذکریا علیہ السلام رات و دن عبادت کرتے تھے اور اپنے رب کو سچے دل سے پکارتے تھے، نیک کام کرتے تھے، جب آپ اللہ کا ذکر کرتے اس وقت عود ولو بان جلا کر ماحول کو خوشبو میں بسا دیتے۔
آپ پیشہ کے اعتبار سے بڑھئی تھے اپنی محنت سے روزی کماتے جو پیسہ ملتا اس میں سے بھی حاجت مندوں کو دیے محتاجوں کو کھانا کھلاتے جو لوگ رات و دن عبادت میں مصروف رہتے ان کی دیکھ بھال کرتے ان کے کھانے کا انتظام کرتے ، حضرت زکریا علیہ السلام کا زمانہ اور حضرت عیسی علیہ السلام کا زمانہ ایک تھا آپ حضرت عیسی علیہ السلام کے رشتہ دار تھے آپ جس عبادت خانے میں ذکر کرتے تھے عبادت خانہ میں کاہن کی حیثیت رکھتے تھے اس عبادت خانہ کو ہیکل کہا جاتا ہے۔
اسی عبادت خانے میں حضرت مریم کو بھی رکھا گیا تمام کاہنوں کی خواہش تھی کہ مریم کی دیکھ بھال کی ذمہ داری انہیں ملے، چونکہ حضرت زکریا علیہ السلام نے مریم کی دیکھ بھال اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھنے کی جامی ہی تھی اس لئے مریم کو ان کی کفالت میں دیا گیا آپ نے مریم کو اپنی سر پرستی میں بے لیا۔
حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی ، حضرت زکریا علیہ السلام کی پکار کے جواب میں فرشتوں نے آواز دی جب آپ ہجرے میں عبادت میں مصروف تھے اللہ تجھے بیٹی کی خوش خبری دیتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ایک فرمان کی تصدیق کرنے والا بن کر آئے گا وہ بزرگ ہوگا، اور وہ صالحین میں شمار کیا جائے گا۔
چنانچہ حضرت یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ، حضرت زکریا علیہ السلام اور ان کی بیوی کا ذکر انجیل لوقا میں یوں کیا گیا۔
وہ دونوں خدا کے حضور سچے، راست باز خداوند کے تمام احکام اور قوانین پر عمل کرنے والے تھے۔
ایک مرتبہ ایک شخص عبادت خانہ میں آیا اور حضرت زکریا علیہ السلام سے مل کر کہا کہ میں صبح شام عبادت خانہ میں عبادت کرنا چاہتا ہوں تاکہ میں جنت کا حقدار بنوں حضرت زکریا علیہ السلام نے اس سے فرمایا تو حق دار کسی طرح ہو گا جبکہ تیرا رب تجھ سے دور ہے۔
میرا رب مجھ سے کس طرح قریب ہوگا ، مجھے نصیحت فرمائیں؟
حضرت زکریا علیہ السلام نے اس سے چند سوالات کئے
کیا تو ماں باپ کی خدمت کرتا ہے؟
نہیں ۔ اس نے جواب دیا۔
ہے؟" پھر آپ علیہ السلام نے پوچھا۔ ” کیا تو لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا
آ ہے؟" پر علیہ السلام نے پوچھا کیا تو غریبوں اور مانگنے والوں کو کھانا دیتا
اس نے جواب دیا: نہیں۔
نہیں ۔ اس نے جواب دیا۔
آپ علیہ السلام نے دریافت کیا کیا تو کسی کا حق مارتا ہے؟“ اس نے جواب دیا ہاں ، مجھ سے یہ گناہ ہوتا ہے۔
آپ نے کہا یہی وجہ ہے کہ تیرا رب تجھ سے دور ہے اگر تو چاہتا ہے کہ تیرا رب تجھ سے قریب ہو، ماں باپ کی خدمت کر لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کر۔ لوگوں سے نرمی سے بات کر مانگنے والوں کو کھانے کے لئے دے جو تجھ سے ہو سکے مریضوں کی عیادت کر انہیں تسکین دے کسی کا حق نہ مار جب تو یہ عمل کرے گا تیرا رب تجھ سے قریب ہو گا جب قریب ہوگا تو تیری آواز سنے گا۔
پھر عبادت خانے میں آ۔ اسے یاد کر پھر تیرا رب تیری بات سنے گا۔ آپ کی وفات کے متعلق اختلافات پائے جاتے ہیں بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ آپ کو شہید کیا گیا، بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ آپ قدرتی موت ے انتقال کر گئے۔
*******
Nice
ReplyDeleteBeautiful
ReplyDelete