حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ

حضرت موسیٰ علیہ السلام

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تعلق اسرائیلی گھرانے سے تھا ان کے ماننے والے آج بھی لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں اسرائیل کے نام سے اپنا ایک علیحدہ وطن قائم کر لیا ہے قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تفصیل سے ذکر ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام جس خاندان میں پیدا ہوئے اس کا نام بنی اسرائیل ہے اس خاندان کا سلسلہ پشت در پشت حضرت یعقوب علیه السلام سے جاملتا ہے۔ اسرائیل کے معنی خدا کا بندہ ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرت یعقوب کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا گیا۔

حضرت یعقوب کا وطن کنعان تھا ایک مرتبہ ملک کے کنعان تھا ایک مرتبہ ملک کنعان میں زبردست قحط پڑا اناج کی قلت پیدا ہوگئی حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کے ساتھ مصر چلے گئے یہ ایک طرح کی ہجرت تھی۔ حضرت یعقوب کسی طرح اور کس حال میں ہجرت کر گئے اس واقعہ کا ذکر حضرت یوسف علیہ السلام کی تاریخ میں ملتا ہے چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کی اولاد مصر میں آباد ہوگئی مصر کے اصلی باشندوں کو قبطی کہا گیا اس لحاظ سے مصر میں دو تو میں آباد تھیں ان میں اسرائیلی کم تعداد میں تھے، اس لئے یہ قوم قبطیوں کی غلامی کرتی تھی قبطی اسرائیلیوں کو حقیر نظر سے دیکھتے تھے اسرائیلی قبطیوں کے لئےہر ادنی کام کرتے، عمارتیں بناتے ، بوجھ ڈھوتے ، کنوئیں کھودتے پانی لاتے لیکن خود ان کا اپنا حال یہ تھا کہ انہیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا تھا مصر کے باشندے بتوں کی پوجا کرتے تھے ، ان میں ایک دیوتا کا نام ہورس تھا ہوری جنگ کا دیوتا کہلاتا تھا وہ جانوروں کو بھی دیوتا مانتے تھے ان میں خاص طور سے بیل کو مقدس جانتے ، سورج کی پوجا کرتے مصر کا بادشاہ فرعون کہلاتا تھا اس نے خود اپنے آپ کو خدا کا درجہ دے رکھا تھا۔

ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک دن نجومی نے فرعون سے کہا کہ اسرائیلی گھرانے میں ایک ایسا لڑکا پیدا ہو گا جو تمہاری اور تمہارے دین کی مخالفت کرے گا ، وہ تمہیں خدا نہیں مانے گا۔ فرعون گھبرا گیا اور غور کرنا شرور کاکہ اب کیا کرنا چاہئے اس نے درباریوں سے مشورہ کیا درباریوں نے سوچ کے بعد رائے دی کہ اس مصیبت سے رہائی پانے کے لئے ایک ہی را۔ ہے وہ یہ کہ جس اسرائیلی گھر میں لڑکا پیدا ہو قتل کر دیا جائے اور لڑکیوں کو چھوڑ دیا جائے اس طرح خطرہ مل جائے گا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ کارندے چھوڑے جائیں وہ گھر گھر جا کر معلومات حاصل کریں گے کہ کسی گھر میں حاملہ عورت ہے پھر اس پر نظر رکھی جائے۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اس کام کے لئے کارندوں کو چھوڑا گیا، یہ کارندے گھر گھر جاتے عورتوں کے پیٹ ٹولتے اسرائیلیوں کے اندر فرعون کے خلاف بولنے کی جرات بھی نہ تھی ، نہ وہ احتجاج کر سکتے تھے وہ دل ہی دل میں کڑھنے لگے ان تمام پیش بندیوں کے باوجود اسرائیلی گھرانے میں عمران نامی ایک شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا عمران کی بیوی پریشان تھی کہ کس طرحلڑکے کو بچایا جائے ، فرعون کے کارندے گھر گھر جاتے ہیں عمران کی بیوی کو بھی خوف لاحق ہو گیا ، آخر کار فرعون کے کارندوں کو معلوم ہو گیا وہ اچانک دروازے پر دستک دینے لگے۔ عمران کی بیوی سمجھ گئی اس نے فوراً بچہ کو جلتے ہوئے تنور کے اندر ڈال دیا اس طرح فرعون کے آدمیوں کو شک بھی نہیں ہوگا پھر گھر کا دروازہ کھول دیا کارندے گھر کے اندر گھس آئے ہر طرف دیکھا کونے کھدرے میں جھانکا بچہ کہیں بھی نظر نہیں آیا پھر وہ لوگ واپس چلے گئے عمران کی بیوی کو پختہ یقین تھا کہ بچہ جل کر بھسم ہو چکا ہوگا، اس نے دل پر ہاتھ رکھ کر فوراً تنور میں دیکھا تو خوشی کے مارے اچھل پڑی، بچہ آگ میں زندہ سلامت تھا فورا بچہ کو آگ سے نکالا بچہ پوری طرح محفوظ تھا جسم کا کوئی حصہ بھی نہیں جلا تھا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا ، خطرہ مل گیا۔

اللہ نے عمران کی بیوی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ بچہ کو دودھ پلا کر اور کپڑے پہنا کر صندوقچہ میں بند کر کے دریائے نیل میں بہادے۔ عمران کی بیوی نے ایک خاص قسم کا صندوقچہ تیار کروایا جس میں پانی داخل ہونے کا کوئی راستہ نہیں تھا بچہ کو دودھ پلایا اور کپڑے پہنا کر صدوقچہ میں لٹا دیا اور اطمینان کے ساتھ دریائے نیل کی سطح پر ڈال دیا۔ عمران کی ایک بیٹی تھی جیہ کا نام مریم تھا ماں نے بیٹی سے کہا کہ اس صندوقچہ کے ساتھ ساتھ دریا کے کنارے چلو اور یہ دیکھتی رہو کہ صندوقچہ کہاں پہنچتا ہے، چنانچہ مریم نے ایسا ہی کیا۔ صندوقچہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ بہتا رہا۔ اسی دریا سے ایک اور شاخ فرعون کے محل کے احاطہ میں نکالی گئی تھی صندوقچہ محل کے احاطہ میں داخل ہو گیا عین محل کے سامنے رک گیا وہاں فرعون اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا صندوقچہ پر دونوں کی نگاہیں پڑیں مریم سب کچھ دیکھتی رہی جیسے ہی صندوقچہ فرعون کے محل کے پاس رکا مریم واپس لوٹ گئی اپنی ماں کو سارا ماجرہ سنا دیا۔

فرعون نے صندوقچہ نکالا جب کھول کر دیکھا تو ایک خوبصورت بچہ ہاتھ پاؤں، شیخ رہا تھا دونوں حیرت میں پڑ گئے اور ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے پھر فرعون نے کہا کہ بچہ اسرائیلی معلوم ہوتا ہے، اسے مار دینا چاہئے اس پر فرعون کی بیوی نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا کوئی بچہ نہیں ہے کیا ہی اچھا ہو کہ اسے ہی پال پوس کر بڑا کیا جائے ، جب یہ اپنی عمر کو پہنچے گا تو ہماری تمام عادتیں اور مزاج اپنا لے گا اسے ہم اپنا بیٹا بنا ئیں گے فرعون نے بیوی کی باتوں کو غور سے سنا اور مان گیا۔ دونوں نے بچہ کو اٹھا لیا اور پرورش کرنے لگے لیکن بچہ دودھ نہیں پی رہا تھا۔ پرورش کے لئے بہت سی دایہ عورتوں کو بلایا گیا لیکن بچہ نے کسی کا دودھ نہیں پیا۔ مریم نے فرعون کی بیوی سے کہا کہ ایک دایہ میں لاؤں گی بچہ یقیناً اس کا دودھ پیئے گا مجھے اجازت دو، فرعون کی بیوی مایندگی اور کہا کہ ایسی ہی دایہ لے آؤ جو بچہ کو دودھ پلا سکے میں معقول معاوضہ دوں گی۔ مریم فورا ماں کے پاس گئی اور خوش خبری سنائی اور ماں کو ساتھ لیتی آئی۔

عمران کی بیوی فرعون کے محل میں پہنچ گئی بچہ کو سینے سے لگایا بچہ نے خوشی خوشی دودھ پینا شروع کیا فرعون کی بیوی بچہ کو دودھ پیتا دیکھ کر خوش ہو گئی عمران کی بیوی کو اپنے محل میں ملازمہ رکھ لیا۔ ماں اور بچہ ایک ساتھ رہنے لگے ، دن گزرتے گئے حضرت موسی محل کے اندر پرورش پانے لگے جب ان کی عمر بیس سال ہوئی تو فرعون نے شادی کرادی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اکثر محل سے نکل کر شہر میں ادھر ادھر گھوما کرتے ان کا یہ روز کا معمول تھا ایک روز وہ ایک راستہ سے گزر رہے تھے کہ ایک قبطی ، اسرائیلی سے الجھ رہا تھا کہ نوبت مار پیٹ تک پہنچ گئی اسرائیلی نے موسیٰ علیہ السلام کو آواز دیتے ہوئے مدد کے لئے پکارا جب موسیٰ علیہ السلام قریب پہنچے تو دیکھا کہ قبطی ، اسرائیلی کو بے تحاشہ مار رہا ہے موسیٰ علیہ السلام نے بیچ بچاؤ کی کوشش کی لیکن قبطی نہیں مان رہا تھا اس پر موسیٰ علیہ السلام نے قبطی کے ایک گھونسا مارا تو وہ بلبلا اٹھا اور ایک لمحہ بعد ہی وہ مر گیا اس کے مرنے پر موسیٰ علیہ السلام پریشان ہو گئے اور اسرائیلی سے کہا کہ وہ فوراً چلا ہائے اس واقعہ سے موسیٰ علیہ السلام کو ندامت ہوئی، جان سے مارنے کی نیت نہیں تھی ، پھر آپ نے اللہ تعالی سے گریہ زاری کے ساتھ دعا کی

اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا مجھ کو بخش دے، بےشک تو بڑا بخشنے والا ہے ۔ فرعون نے حکم دیا کہ قاتل کو تلاش کرو، کچھ عرصہ بعد موسیٰ علیہ السلام ایک راستے سے گزر رہے تھے دیکھا کہ وہی اسرائیلی ایک اور قبطی سے الجھ رہا تھا اس نے پچھلی مرتبہ کی طرح موسیٰ کو پکارا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسرائیلی کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تم ہمیشہ لوگوں سے لڑتے رہتے ہو اور مجھے بلاتے ہو اسرائیلی نے چیچنتے ہوئے کہا کہ موسیٰ ہم پر کیوں خفا ہوتے ہو کیا تم مجھے بھی مار ڈالو گے جیسا کہ کچھ دن قبل تم نے ایک قبطی کو مار ڈالا تھا ، اسرائیلی کی زبان سے نکلی ہوئی یہ بات راہ گیروں نے سن لی، حضرت موسیٰ علیہ السلام گھبرا گئے کہ بات فرعون کے کانوں تک پہنچ جائے گی اور وہ مجھے سزا دے گا۔ آپ نے اس خیال سے مصر سے نکل جانے کا فیصلہ کیا فرعون کے قہر سے بچنے کا یہی ایک راستہ تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے روانہ ہوئے اور بدین کی جانب چل پڑے آپ راستہ طے کر رہے تھے راستہ کیا تھا ایک چٹیل میدان تھا جہاں نہ پانی تھا نہ کوئی سایہ دار درخت تھا، صرف خاردار جھاڑیاں تھیں گرمی کی شدت سے برا حال تھا۔ لیکن آپ راستہ طے کرتے رہے۔ کچھ دور فاصلے پر ایک کنواں نظر آیا، وہاں کچھ لوگ پانی بھرتے نظر آ رہے تھے آپ کنوئیں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ چرواہے پانی نکال رہے ہیں ایک طرف دولڑ کیاں بھی کھڑی ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے لڑکیوں سے کھڑی ہونے کی وجہ د یافت کی۔ تو لڑکیوں نے بتایا کہ یہ چرواہے پانی لینے نہیں دیتے ہمارےوالد ضعیف العمر ہیں وہ پانی بھرنے کے قابل نہیں اس لئے ہم یہاں پانی لینے آئے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے وہاں سے چرواہوں کو ہٹایا، کنوئیں پر سے بھاری پتھر کو ہٹایا کنوئیں کا ڈول بھی بھاری تھا، اسی ڈول سے پانی نکال کر لڑکیوں کو دیا اور خود بھی پیا۔

لڑکیوں نے اپنے مویشیوں کو پانی پلایا اور پانی لے کر گھر کی طرف چل پڑیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے یہ جگہ اجنبی تھی یہاں انہیں کوئی جانتا بھی نہیں تھا ان کے پاس کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا سفر کرنے کے باعث بہت زیادہ تھکے ہوئے بھی تھے پاس ہی ایک درخت کے سایہ میں بیٹھ گئے اور دعا کی

اے رب ، تو نے جو اچھی چیز اتاری ہے میں اس کا محتاج ہوں۔

لڑکیوں نے گھر پہنچ کر اجنبی مسافر اور پانی دینے کے بارے میں باپ سے سارا ماجرہ بیان کیا باپ نے ایک لڑکی سے کہا کہ جاؤ اس اجنبی مسافر کو اپنے ساتھ لے آؤ وہ ہمارا مہمان ہوگا ۔ بیٹی باپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئی اور کہا کہ میرے باپ نے آپ کو یادفرمایا ہے آپ میرے ساتھ چلئے وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام آمادہ ہوئے اور ساتھ روانہ ہو گئے راستہ میں

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے لڑکی سے کہا کہ میں آگے چلوں گا تم میرے پیچھے چلنا اور رہنمائی کرنا دونوں گھر پہنچے ۔ بیٹی نے حضرت موسیٰ کا تعارف باپ سے کروایا دونوں کچھ دیر باتیں کرتے رہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مصر چھوڑ نے کا تمام واقعہ سنایا اس پر بزرگ میزبان نے شعیب کے نام سے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ تم میرے مہمان ہو، اور یہاں محفوظ ہو، اب تم ظالموں سے دور ہو۔

بیٹی نے باپ سے سفارش کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس اجنبی کو ملازم رکھ لیجئے اس لئے کہ یہ قوی بھی ہے اور امانت دار بھی ہے۔ باپ نے قومی ہونے کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ قوی ہونے کا ثبوت اس طرح ملا کہا س نے بھاری ڈول سے پانی نکالا۔

لیکن یہ تم نے کیوں کر جانا کہ وہ امانت دار بھی ہے؟ حضرت شعیب علیہ السلام نے پوچھا۔ بیٹی نے جواب دیا کہ جب میں بلانے گئی تو اجنبی نے مجھے پیچھے چلنے کے لئے کہا، اور وہ خود آگے چلتا رہا میں اشارہ سے راستہ بتائی رہی ہم دونوں اسی طرح راستہ طے کرتے رہے میں سمجھ گئی کہ پیچھے چلنے کا اشارہ اسی لئے تھا کہ اس کی نگاہ مجھ پر نہ پڑے۔

حضرت شعیب نے حضرت موسی سے فرمایا کہ اللہ نے میرے دل میں بات ڈال دی کہ میری بیٹی صفورہ کا نکاح تم سے کردوں اس کا حق مہر یہ ہے کہ تم آٹھ سال تک میری بکریوں کی رکھوالی کرو اگر مدت بڑھا کر دس سال کر دو تو یہ اور بھی بہتر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شرائط منظور کر لیں اور نکاح ہو گیا ۔ حضرت شعیب نے اپنا عصا بھی حضرت موسی کے

حوالے کیا، وہ ایک مدت تک مدین میں رہے اور ذمہ داریاں نبھاتے رہے لیکن مصر کے یا دستاتی رہی کبھی کبھی ان کے دل میں خیال آتا کہ مصر واپس جا کر حالات کا جائزہ لیا جائے۔

آپ نے ایک مرتبہ پختہ ارادہ کر لیا حضرت شعیب کو اپنے ارادہ سے آگاہ کیا اور اجازت چاہی ۔ حضرت شعیب نے جانے کی اجازت دے دی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی اہلیہ صفورہ کے ہمراہ جانے کے لئے سامان سفر باندھ لیا اور مصر کی جانب چل پڑے راستہ طے کر رہے تھے کہ کھانے کا وقت آپہنچا کھانا پکانے کے لئے آگ کی ضرورت پڑی، چقماق پتھر کو رگڑنا شروع کیا لیکن آگ کی چنگاری بھی نہیں نکلی تو مایوس ہو گئے ۔

یک بارگی آسمان پر کالے بادل چھا گئے ، اچانک تیز وتند آندھی آئی اس کے بعد بارش شروع ہو گئی جس سے موسم بدل گیا بلکہ موسم سرد ہو گیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سردی محسوس ہوئی گرمی پیدا کرنے کے لئے آگ کی ضرورت پڑ گئی، آپ چاروں طرف دیکھنے لگے کہ شاید کہیں آگ نظر آجائے ۔ آپ نے دیکھا کہ کچھ دور فاصلے پر روشنی دکھائی دینے لگی آپ اپنی بیوی صفورہ سے کہنے لگے کہ یہاں سے کچھ دور مجھے روشنی نظر آرہی ہے، میں جا رہا ہوں ، ہو سکتا ہے کہ وہاں آگ جل رہی ہو، میں آگ لینے جا رہا ہوں۔

آپ اس روشنی کے مقام کی طرف روانہ ہوئے، کچھ دیر بعد وہاں پہنچ گئے قریب جا کر دیکھا کہ ایک پہاڑ ہے اور نزدیک ایک درخت ہے اس کے پیچھے سے روشنی آرہی ہے آپ نے غور سے دیکھنا شروع کیا اس مقام سے ایک آواز ابھری، آواز میں جاہ و جلال کی کیفیت تھی

" اے موسیٰ میں تمام جہانوں کا رب ہوں تو پاک جگہ پر ہے اس مقام کا نام طوئی ہے تو اپنی جوتیاں اتار پھر اس بلندی پر چڑھ جا ، یہ طور کا پہاڑ ہے۔ اس پر اسرار آواز سے آپ شش و پنچ میں پڑ گئے، کچھ خوف کا احساس ہوا، حکم کے مطابق آپ بلندی پر چڑھ گئے پھر آواز گونجتی ہے

اے موسیٰ میں نے تجھے پیغمبری کے لئے چن لیا ہے، میں رب ہوں میری عبادت کر، نماز قائم کر ۔ پھر آپ اللہ سے کلام کرتے ہیں اس لئے حضرت موسیٰ کو کلیم اللہ بھی کہا جاتا ہے جو روشنی نظر آئی وہ اللہ کا نور تھا جو کوہ طور پر ظاہر ہوا اللہ نے پھر موسیٰ علیہ السلام سے دریافت کیااے موسیٰ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟“ موسیٰ فرماتے ہیں ۔ یہ میرا عصا ہے اس سے بکریوں کو ہانکتا ہوں ، اس سے درختوں سے پتے جھاڑ کربکریوں کو کھلاتا ہوں ۔ پھر اللہ کی جانب سے حکم ہوتا ہے اس عصا کو زمین پر ڈال ؟ ل دے۔ آپ حکم کی تعمیل کرتے ہیں ، عصا سانپ کی شکل اختیار کر لیتا ہے آواز آتی ہے، خوف نہ کھا اسے اٹھا لے۔ آپ سانپ کو اٹھا لیتے ہیں تو پھر وہ دوبارہ عصا بن جاتا ہے۔ حکم ہوتا ہے کہ فرعون کے پاس جا اسے ہدایت کرہاں حضرت موسی اپنے رب سے فرماتے ہیں میں ڈرتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے فرعون مارڈالے ۔ پھر آپ اپنے رب سے التجا کرتے ہیں کہ ہارون کو میرا مددگار بنا اس کی زبان اچھی ہے ۔ اللہ نے فرمایا " اے موسیٰ تجھے اور تیرے بھائی کو قوت بخشوں گا تمہیں لوگوں پر غالب کروں گا۔ پھر موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی اے اللہ میرا سینہ کشادہ کر ، میری زبان کی گرہ کھول دے تا کہ میں لوگوں سے بات کر سکوں ، ہارون میرا مددگار ہوگا۔

اللہ نے فرمایا، تیری حاجتیں پوری ہوئیں ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی بیوی صفورہ کے پاس گئے تمام واقعہ سنایا اور کہا کہ جہاں ہو اسی جگہ قیام کرنا، میں اللہ کا پیغام لے کر فرعون کے پاس جا رہا ہوں ۔ آپ عصا لے کر مصر روانہ ہوئے ، وہاں پہنچ کر اپنے گھر والوں سے ملے ان سے سارا ماجرہ بیان کیا ، ہارون کو خوش خبری سنائی ۔ دونوں مل کر فرعون کے محل میں حاضر ہوئے اچانک حضرت موسیٰ کو دیکھ کر فرعون پیچ اٹھا اور کہا اے موسیٰ تم نے میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا میں نے تمہیں اولاد کی طرح پالا اور بڑا کیا لیکن تم نے اس کا حق ادا نہیں کیا، مجھے معلوم ہوا کہ تم نے ایک شخص کو قتل کیا اور بھاگ گئے بڑے عرصہ تک تم نظر نہیں آئے بتاؤ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں؟

مان حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا " میری نیت قتل کرنے کی نہیں تھی جو کیا ہوا وہ اتفاق تھا اس کے لئے میں نے اپنے رب سے معافی طلب کی میں تو صرف خوف سے بھاگا تھا ، جب میرے رب نے مجھے پیغمبری عطا کی تو میں تمہیں راہ راست پر لانے کے لئے آیا ہوں۔

حضرت موسیٰ کی باتیں سن کر فرعون نے اپنے مصاحبوں اور درباریوں سے کہا کہ موسیٰ دیوانہ ہو گیا ہے، اور عجیب و غریب باتیں کرتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں دیوانہ نہیں ہوں میں سارے جہاں کے خالق خدا کا پیغام لے کر آیا ہوں وہی پر وردگار ہے اگر تمہارے اندر ذرہ برابر بھی سمجھ ہے تو سمجھ سکتے ہو ۔ فرعون نے دعوی کرتے ہوئے کہا کہ میرے سوا اور کون معبود ہو سکتا ہے اگر تم مجھے معبود نہیں سمجھتے تو میں تجھے قید کر دوں گا، فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کیا تمہارا پروردگار میری عمر بڑھا سکتا ہے اور تمام دنیا کی بادشاہی مجھے دے سکتا ہے اس پر موسیٰ علیہ السلام نے جواب ب دیا کہ میرا پروردگار ہر شے پر قادر ہے۔

خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ فرعون سے نرمی سے بات کر جو دل میں اتر جانے والی ہو۔

فرعون نے پھر سوال کیا خدا نے تمہیں پیغمبر بنایا ہے اس کی تمہارے پاس کیا دلیل ہے؟ موسیٰ نے اپنا عصاز مین پر ڈال دیا تو وہ ایک خوف ناک ارد ہے کی شکل اختیار کر گیا۔ فرعون نے جب یہ معجزہ دیکھا تو خوف زدہ ہوا۔ پھر حضرت موسیٰ نے اژدہے کو اٹھا لیا تو وہ عصا بن گیا۔ فرعون نے درباریوں ہے کہا کہ موسیٰ تو جادو گر ہے یہ جادو کے زور پر تم لوگوں کو ملک سے نکال دے گا فرعون کے مصاحبوں نے اسے مشورہ دیا کہ موسیٰ کے مقابلے کے لئے ملک بھر کے بڑے بڑے جادو گروں کو بلایا جائے ان سے مقابلہ کرنا موسیٰ کے بس کی بات نہ ہوگی چنانچہ جادو گروں کو تلاش کر کے فرعون کے دربار میں لایا گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی پیغام بھیجا کہ آئے اور جادو گروں سے مقابلہ کرے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام دربار میں پہنچے، ساتھ ہارون بھی تھے فرعون نے موسیٰ سے کہا کہ اپنا کمال دکھاؤ ، موسیٰ نے جادو گروں کو للکار کر کہا کہ آئیں اپنا جادو کا کمال دکھا ئیں جادو گر اپنے ساتھ رسیاں بھی لائے تھے جادو گروں نے اپنی اپنی رسیاں زمین پر ڈال دیں تو وہ بڑے بڑے سانپ بن کر رینگنے لگے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنا عصا زمین پر ڈال دیا تو وہ اثر رہا بن کر تمام سانپوں کو نگل گیا۔ یہ معجزہ دیکھ کر جادو گر حیرت میں پڑ گئے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ حق اور باطل ظاہر ہو گئے ۔“ تمام جادوگر معجزہ دیکھ کر سجدہ میں کر گئے اور کہنے لگے کہ ہم موسیٰ اور ہارون علیہم السلام کے دین پر ایمان لے آئے اور کہا کہ موسیٰ حق پر ہے اور سچا ہے جادو گروں کی زبانی موسیٰ اور ہارون کی تعریف سن کر فرعون نے جادوگروں سے کہا۔

میں تم لوگوں کو سزا دوں گا اور تمہارے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دوں گا، جادوگروں نے فرعون کو جواب دیا کہ ہمیں کوئی خوف نہیں ہے ہمیں پروردگار کی طرف جانا ہے وہی ہمارے گناہوں کو معاف کرے گا ، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے رویہ سے مایوس ہو کر اللہ سے دعا کی عن الاب لم نے اللہ فرعون کو مزادے وہ لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے اس کے پاس مال و دولت ہے اسی لئے عیش کی زندگی بسر کر رہا ہے لیکن ایمان نہیں لاتا فرعون اللہ کا منکر تھا ایک روز اس نے اپنے وزیر بانان کو حکم دیا کہ میں خدا کو دیکھنا چاہتا ہوں اس کے لئے ایک بہت اونچا مینار تعمیر کرو میں اس پر چڑھ کر خدا کو دیکھوں گا فرعون کے کہنے پر ہامان نے ایک بلند و بالا مینار تعمیر کیا وہ اتنا اونچا تھا کہ اپنی جگہ پر برقرار نہ رہ سکا اور دھڑام سے زمین بوس ہو گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی اللہ نے سن لی فرعون ہر طرح کے عذاب میں گھر گیا ۔ ملک میں ہر طرف بیماریاں پھوٹ پڑیں، قحط پڑ گیا اناج کا ایک دانہ بھی نہیں مل رہا تھا طرح طرح کی آفات سے فرعون گھبرا گیا اس کی قوم نے واویلا مچایا اور فریاد کی کہ یہ کیا ہو گیا ہم تو ہر طرح کے عذاب میں مبتلا ہوں گئے۔

فرعون نے اپنی قوم سے کہا کہ موسی سے کہو کہ یہ عذاب ٹال ہوئے فرعون کے مشورہ پر لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم سب عذاب میں مبتلا ہو گئے ہیں ہمارے پاس اناج نہیں ہے ہم فاقے کر رہے ہیں بیماریوں سے بھی تنگ آچکے ہیں ہمارے اندر اب اتنی سکت نہیں کہ ہم برداشت کر سکیں ان کی حالت دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہم آ گیا آپ نے اللہ سے دعا کی تو عذاب مل گیا، کچھ عرصہ تک اطمینان سے رہتے پھر دوبارہ گناہ میں مبتلا ہو گئے اور عذاب کو بھول گئے ۔ اللہ نے پھر ان پر عذاب نازل کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور گناہوں کا اعتراف کیا اپنی گمراہ کن حرکتوں پر نادم ہوئے اور کہا کہ ہم موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لے آئے ۔ 

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر اپنی قوم کی نجات کے لئے دعا کی تو عذاب ٹل گیا تو اس پر کہنے لگے کہ مصیبتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، پھر اللہ کا قہر نازل ہوا ٹڈی دل آسمان پر چھا گئے کھڑی فصل تباہ ہوگئی ملک میں قحط پیدا ہو گیا جسم میں جوئیں پیدا ہوئیں، جگہ بہ جگہ مینڈک نظر آنے لگے یہاں تک کہ جینا دو بھر ہو گیا اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ اس سرزمین کو چھوڑ دو اور اپنی قوم بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر نکل پڑو۔ اللہ کے حکم کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے ساتھ نکلنے کی تیاریاں کرنے لگے۔

اں اسی دوران مصر میں وبا پھوٹ پڑی قبطی بڑی تعداد میں مرنے لگے ہر گھر سے نعش نکلتی تھی۔ اس دوران بنی اسرائیل مصر سے جانے لگے ان کے ملک سے نکلنے پر کسی نے توجہ نہیں دی اس لئے کہ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون کی رہنمائی میں بنی اسرائیل کو روانہ کر دیا اور خود پیچھے رہ گئے بنی اسرائیل کا قافلہ دریائے قلزم کے کنارے پہنچ گیا فرعون کے کارندوں نے دیکھا کہ شہر میں کوئی اسرائیلی نظرنہیں آرہا توفرعون کو اطلاع دی ، فرعون اپنے لشکر کے ہمراہ اسرائیلیوں کے تعاقب میں روانہ ہوا فرعون کا بھاری لشکر دیکھ کر موسیٰ کی قوم گھبرا گئی ۔ موسیٰ کی قوم نے کہا کہ ہم مصر سے نہ نکلتے تو اچھا تھا اب تو ہم گھر گئے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔

میرے ساتھیوں خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں میرا رب میرے ساتھ ہے وہی ہمیں راہ دکھائے گا اسی وقت آواز آتی ہے کہ اے موسیٰ اپنا عصا دریا پر مارو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا دریا میں مارا تو دریا کا پانی دو طرف ہو گیا اور درمیان سے راستہ بن گیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو ہدایت کی کہ میں اس راستہ سے دریا پار کرتا ہوں تم سب میرے پیچھے پیچھے آؤ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام روانہ ہوئے اور پیچھے پیچھے ان کی قوم بھی بنی اسرائیل نے دریا عبور کیا۔

فرعون کا لشکر بھی پہنچ چکا تھا جب فرعون نے موسیٰ اور ان کی قوم کو راستہ پار کرتے دیکھا تو خود بھی اپنے لشکر کے ساتھ دریا پار کرنے کی کوشش کی اور جب فرعون اور اس کا لشکر بیچ میں پہنچا تو دونوں طرف کا پانی مل گیا فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ڈو۔ ہنے لگا تو موسیٰ کو آواز دی کہ اے موسیٰ مجھے بچالے میں ڈوب رہا ہوں، میں ایمان لاتا ہوں ۔ حضرت موسیٰ نے اس کی آواز پر توجہ نہ دی اور وہ اپنے لشکر سمیت ڈوب گیا ۔ حضرہ لشکر سمیت ڈوب گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو کرتی سرزمین پر پہنچے نئی جگہ تھی اسرائیلی قوم کے لئے نئی نئی مشکلات اورپریشانیاں پیدا ہوئیں ۔ ا ہو گئیں ۔ کھانے پینے کا کوئی سامان میسر نہیں تھا، زمین بنجر تھی پانی بھی نہیں تھا اس لئے کوئی درخت پودا پیدا نہیں ہوتا تھا اسرئیلیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی کہ ہم کیسی جگہ آگئے ہیں اور کیسی مشکل میں پھنس گئے ہیں یہاں تو زندگی دو بھر ہو گئی ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ مصر کی سرزمین نہیں چھوڑتے۔

اپنی قوم کی باتوں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی پریشان ہو گئے ، یہاں نہ پانی ہے نہ سبزہ پھر آپ نے پانی کے لئے زمین پر عصا مارا تو بارہ چشمے پھوٹ پڑے یہ چشمے اسرائیلیوں کے بارہ قبیلے تھے آپس میں بانٹ لئے اسرائیلیوں نے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ ہمارے کھانے کے لئے سامان فراہم کرو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی تو آسمان سے من و سلوی اتر نے لگا۔

علماء نے وضاحت کی ہے کہ ایک قسم کے پرندے کو کہتے ہیں ۔ اسرائیلی اس کا گوشت کھایا کرتے تھےکسی نے اس کی تشریح اس طرح کی کہ ” جب اسرائیلی صحرائے سینا میں تھے تو کوئی سایہ بھی نہیں تھا تو اللہ نے ان کے لئے بادل کے ذریعہ سایہ پیدا کیا جب رات ہوتی یہی بادل آگ کا ستون بن کر روشنی اور گرمی پیدا کرتا۔ کھانے کے لئے ایک خاص قسم کی خوراک ”من“ بھی بھیجا اس کے باوجود اسرائیلیوں کو تشفی نہ ہوئی اسرائیلیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ یہ تو ایک ہی قسم کا کھانا ہے ہم اسےکھاتے ہوئے اکتا گئے ہیں۔ اے موسیٰ علیہ السلام اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لئے زمین سے کھیرا لکڑی پیاز لہسن اور مسور پیدا کرے ۔ ان حضرت موسی علیہ السلام نے خفا ہو کر فرمایا کہ یہ چیز ہیں تو شہر ہی میں مل سکتی ہیں، جسے ان سب چیزوں کی ضرورت ہو وہ شہر چلا جائے ۔ آپ علیہ السلام نے پھر فرمایا کہ یہ مصیبتیں تو جلد ہی مل جائیں گی ہم بہت جلد مصر لوٹ جائیں گے حضرت موسیٰ کی قوم نے کہا کہ وہاں تو فرعون کی حکمرانی ہے اور وہ ہمارے خلاف ہے، ہم وہاں کسی طرح جائیں اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ فرعون غرق ہو چکا ہے اب وہ اس دنیا میں نہیں رہا اس لئے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی باتوں سے قوم کو اطمینان نہیں ہوا اور کہا کہ اگر فرعون مر چکا ہے تو ہم اس کی نعش دیکھنا چاہتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی تو پانی نے فرعون کی نعش کوا و پر اچھال دیا نعش کنارے پر آ لگی جب سب نے دیکھا تو یقین آیا۔

کچھ ہی عرصہ گزرا کہ اللہ نے حضرت موسی سے کہا کہ اپنی قوم کے ساتھ مصر واپس لوٹ جاؤ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے حکم کے مطابق اپنی قوم کو لے کر مصر چلے گئے۔ وہاں فرعون کے محلات اور اس کی ہر چیز پر قبضہ کر لیا اس کے بعد آپ اس مقام پر بھی گئے جہاں آپ نے اپنی بیوی صفورہ کو قیام کرنے کے لئے کہا تھا ۔ ملاقات کے بعد آپ اپنی قوم کی طرف متوجہ ہوئے اور دین کی تبلیغ شروع کر دی آپ نے ان کو پیغام دیا کہ اللہ نےمجھے نبوت عطا کی میں شریعت کی باتیں بتاؤں گا۔ اس پر عمل کرو گے تو اس میں تمہارا ہی فائدہ ہوگا۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہا کہ ہم کسی طرح یقین کریں کہ اللہ نے آپ کو نبی بنایا پھر آپ نے اپنی قوم میں سے چند صالحبندوں سے کہا کہ تم اپنی نظروں سے سب کچھ دیکھو گے، اس کے لئے تم لوگوں کو میرے ساتھ چلنا پڑے گا اور تم جو کچھ دیکھو گے یہاں آ کر گواہی دینا صالح بندوں نے مان لیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جانے پر راضی ہو گئے۔

آپ نے ستر نیک بندوں کو اپنے ساتھ لیا اور ہارون کو اپنا نائب بنا کر چھوڑ دیا یہ ستر آدمی عالم تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام انہیں لے کر کوہ طور پر پہنچے تو اللہ نے وحی نازل کی کہ اے موسیٰ تم نے تمھیں روزے رکھے ہیں روزے اور بھی رکھو تو چالیس روزے پورے ہو جائیں گے تو میں توریت نازل کروں گا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ بات ستر نیک بندوں کو بتائی۔ ان سب نے آپ سے کہا کہ جب تک ہم خدا کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ، ہم یقین نہیں کریں گے تم خدا کو دکھا دو تو ہم یقین کر لیں گے۔ آپ نے ان سب لوگوں کو بتایا کہ خدا کو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا میں کس طرح دکھاؤں ، اللہ کی طرف سے میرے دل پر باتیں اترتی ہیں ۔ لیکن وہ لوگ نہیں مانے اپنی ضد ر قائم رہے پھراللہ کا غضب جوش میں آیا، ان پر بھی گری جس سے وہ سب ہلاک ہو گئے ان کے مرنے پر آپ زیادہ پریشان ہو گئے اپنے دل ہی دل میں کہنے لگے کہ میں اپنی قوم کو کس طرح منہ دکھاؤں گا پھر آپ نے اللہ سے دعا کی تو وہ سب کے سب دوبارہ جی اٹھے، آپ ان سب کو لے کر مصر روانہ ہوئے اور دس روزے رکھے اس طرح چالیس روزے پورے کئے ۔

پھر آپ نے دوبارہ ان ستر نیک آدمیوں کو اپنے ساتھ لیا اور کوہ طور پر پہنچے وہاں آپ پر وحی نازل ہوئی اللہ نے فرمایا اتنی جلدی کیوں کی؟ آپ نے جواب دیا تا کہ تو مجھ سے راضی ہو پھر آپ نے فرمایا ” میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں ، اللہ نے فرمایا اے موسیٰ تو مجھے نہ دیکھ سکے گا تو پہاڑ کی طرف نظر رکھ۔ حضرت موسیٰ نے پہاڑ کی طرف نگاہ اٹھائی تو اللہ نے اپنی تجلی دکھائی تو آپ تاب نہ لا سکے اور بے ہوش ہو گئے جب ہوش میں آئے تو دیکھا پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا آپ نے اللہ سے معافی مانگی۔

اس وقت اللہ نے آپ پر توریت نازل کی ، بتایا جاتا ہے کہ آپ کو پہلے دس احکام ملے جن میں دس اخلاقی باتیں تھیں ان دس احکام کو احکام عشرہ کہتے ہیں یہ احکام پتھر کی سلوں پر کندہ تھے اسے صحیفہ کہا جاتا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اور ہم نے چند تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل ان کو لکھ کر دی کہ ان کو کوشش کے ساتھ عمل میں لاؤ اور اپنی قوم کو بھی حکم کرو کہ ان کے اچھے اچھے احکام پر عمل کریں ۔ (سورہ الاعراف)

توریت باب خروج میں اس کا اس طرح ذکر ہے۔

 میرے حضور تو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔

تو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی صورت نہ بنانا۔

 تو خداوند اپنے خدا کا نام بے فائدہ نہ لینا کیوں کہ جو اس کا نام بے

فائدہ لیتا ہے خداوندا سے بے گناہ نہ ٹھہرائے گا۔

 یاد کر کے تو سبت کا دن پاک ماننا

 تو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا تا کہ تیری عمر اس ملک میں

جو خداوند ، تیرا خدا تجھے دیتا ہے دراز کرے۔

تو خون نہ کرنا۔

 برے اور شرمناک کام نہ کرنا۔

تو چوری نہ کرنا ۔

 تو اپنے پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا

 اپنے پڑوسی کے گھر کالالچ نہ کرنا، تو اپن پڑوسی کی بیوی کا لالچ نہ کرنا اور نہ اس کے غلام اور لونڈی اور اس کے بیل اور اس کے گدھے کا اور

اپنے پڑوسی کی کسی اور چیز کا لالچ کرنا۔ (خروج)

اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام ان ستر آدمیوں کو ساتھ لے کر اپنی قوم کی طرف لوٹے تو دیکھا کہ لوگ گمراہ ہو چکے ہیں اور بچھڑے کی پوجا کر رہے ہیں۔ حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام سے پوچھ کچھ کی تو ہارون علیہ السلام نے سارا ماجرا بیان کرتے ہوئے کہا۔ سامری نے سب کو گمراہ کرنا شروع کیا اس نے لوگوں کو بتایا کہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھ جو لوگ گئے ہیں وہ بلب کے سب مر چکے ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام کی جگہ پر میں کام کروں گا تم لوگ خدا کو دیکھنا چاہو گے تو میں تم لوگوں کو دکھا دوں گا۔ اس نے لوگوں سے سونا اور چاندی مانگ مانگ کر جمع کیا اس سے ایک بچھڑا تیار کیا اس میں جادو کے ذریعہ ایسی صفت رکھ دی جیسے وہ بول رہا ہو۔ بچھڑے کو ایک کھلی جگہ پر رکھ دیا اس کے ارد گرد لوگ جمع ہو گئے سامری نے لوگوں سے کہا کہ میں بچھڑے سے جو کچھ پوچھوں گا یہ جواب دے گا سامری نے بچھڑے سے پوچھا، تو کون ہے؟ بچھڑے نے جواب دیا میں تمہارا رب ہوں ۔ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی زندہ نہیں ہیں تم مجھے رب مانو اور سامری کی باتوں پر عمل کرو ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ہارون کی زبانی تمام باتیں سنیں تو قوم سے کہا کہ ان خلافت ان اقدم سے رب کا حکم مانو جس نے سیاری کا ئنات کو پیدا کیا، اللہ نے مجھ پر کتاب توریت نازل کی ہے، یہی شریعت ہے اس پر عمل کرو، پھر آپ نے سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کو توڑ ڈالا اور کہا کہ یہ بت پرستی ہے، بہتوں کی پوجا نہ کرو، نیک عمل کرو، برائی سے بچوں، قوم نے حضرت موسی علیہ السلام کی باتوں کو نہیں مانا تو اللہ نے ان لوگوں پر عجیب و غریب عذاب نازل کیا وہ مذہب کی طرح تھا جیسے کہ ان کے سروں پر پہاڑ لٹک رہا ہو اور ابھی گرنےہی والا ہولوگ سروں پر لٹکتے ہوئے پہاڑ کو دیکھ کر خوف زدہ ہوئے اور سجدےمیں گر پڑے تو ان پر سے عذاب ٹل گیان شاه وانا احد ما را اہ ایک مرتبہ اللہ نے موسیٰ سے وعدہ کیا تھا کہ میں ملک شام کی سرزمین کا وارث بناؤں گا۔ جہاں تم سب اطمینان سے زندگی بسر کر سکو گے لیکن شرط یہ ہے کہ اس سر زمین کو حاصل کرنے کے لئے جہاد کرنا پڑے گا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ خوش خبری اپنی قوم کو سنائی اس سے خوش آئند بات کیا ہوسکتی ہے۔ اسرائیلی اس بات سے خوش تو تھے وہ چاہتے تھے کہ ہمیں یہ سرزمین آسانی سے مل جائے ، جہاد کرنا نہ پڑے جہاد کرانے کے لئے دل سے تیار نہ تھے۔ موسیٰ کے سمجھانے پر بعد میں آمادہ ہو گئے ۔ حضرت موسیٰ پہلے تو اپنی قوم کو لے کر کنعان پہنچے وہاں جا کر کچھ اطمینان کا سانس لیا وہاں جہاد کے لئے اپنی قوم کو تربیت دینے لگے نظم وضبط پیدا کرنے کے لئے کچھ طریقے وضع کئے بنی اسرائیل بارہ قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے، ہر قبیلے کے لئے ایک سردار مقرر کر دیا تا کہ ہر قبیلہ اپنے اپنے سردار کے ماتحت رہے اور سردار کے حکم پر چلے، ان تمام انتظامی امور کی تکمیل کے بعد جہاد میں جانے کی تیاری شروع کی، اور شام کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔

اب ایرئیلی جہاد میں جانے کے لئے آمادہ نہ ہوئے لڑنے کے نام سے خوانی زدہ تھے اور کہا کہ شام کے باشندے طاقتور ہیں اور جسمانی لحاظ سے بھی وہ ہم سے موٹے تازے ہیں۔ ان زور آوروں سے ہم نہیں لڑ سکتے۔ ہمارے اندر کوئی حوصلہ نہیں ہے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ، ان کے ڈیل ڈول سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے اللہ تعالی ہمیں فتحنصیب کرے گا حضرت موسیٰ کے سمجھانے پر بھی ان کی سمجھ میں نہ آیا وہ اپنی ضد پر اڑے رہے اور کہا کہ اے موسیٰ تم لڑو اور تمہارا رب بڑے ہم نہیں لڑیں گے ۔ موسیٰ اپنی قوم کے اس بزدلانہ رویہ سے بالکل مایوس ہو گئے پھر آپ نے مایوسی کے عالم میں دعا کی اے اللہ مجھے اور میرے بھائی ہارون کو ان سے علیحدہ کردے۔

اللہ نے موسیٰ کی دعا سن لی اور فرمایا کہ یہ لوگ چالیس برس تک اسی میں بھٹکتے ہی رہیں گے انہیں یہاں سے نکلنے کا راستہ نہیں ملے گا چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام اپنی قوم سے ملیحدہ ہو کر شام کی طرف روانہ ہو گئے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے چلے جانے کے بعد ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا ہر طرح کی مصیبت نے انہیں گھیر رکھا تھا۔ مصائب سے وہ بالکل گھبرا گئے اب ان کے سامنے ایک ہی راستہ رہ گیا تھا کہ مصر واپس چلے جائیں لیکن راستہ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا ، وہ مصر جانے کے لئے کچھ فاصلہ طے کرتے دوران سفراسی جگہ گھوم کر چلے آتے جہاں سے سفر شروع کرتے ان کے سامنے یہ عجیب و غریب معاملہ تھا، بھوک، پیاس نے اور بھی نڈھال کر دیا تھا نہ کھانا تھا نہ پانی جب موسیٰ اور ہارون علیہم السلام ملک شام سے لوٹے تو ان کو تباہ حال پایا قوم نے ان سے فریاد کی کہ یہ کیسی مصیبت ہے کہ ہمیں گھیر کر رکھا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام بولے یہ تو تمہارے ہی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے تم بزدل ہو چکے ہو تم نے جہاد میں جانے سے انکار کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تم سب اللہ کے غضب میں آگئے ۔ تم یہاں چالیس سال سے بھٹک رہے ہو، موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے فریاد کی تو ان کی مصیبت ٹل گئی انہیں راستہ ملا پھر مختلف قبیلے مختلف مقامات کی طرف چل پڑے۔ کچھ کچھ قبیلے بیت المقدس میں آباد ہو گئے ۔

مصر میں ایک شخص تھا، نام قارون تھا۔ لیکن تھا بہت بخیل اور کنجوس ، اس کے پاس دولت کی کوئی کمی نہیں تھی۔ روایت ہے کہ اس کے خزانے کی کنجیاں اتنی تھیں کہ اگر ان کنجیوں کو کہیں لے جایا جائے تو اونٹوں کے ایک قافلے کی ضرورت تھی تھی چابیاں بھی اتنی تھیں کہ ان کے بوجھ سے اونٹ بیٹھ جاتے تھے، لیکن وہ اپنا خزانہ غریبوں اور محتاجوں پر خرچ نہیں کرتا تھا نہ بھوکوں کو کھانا کھلاتا نہ کسی کو تن ڈھانکنے کے لئے کپڑے پہناتا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام قارون کو ہدایت کرتے کہ اللہ نے تمہیں بہت دولت دی ہے آخر یہ دولت کس کام کی یہ دولت تو دنیا میں رہ جانے والی ہے اللہ کے نام پر غریبوں اور محتاجوں کو دو۔ قارون جواب دیتا کہ یہ دولت تو میں نے اپنی عقل سے پیدا کی ہے یہ پیر کا مرضی ہے کہ میں کسی کو نہ دوں۔ حضرت موسی علیہ السلام کہتے کہ اپنےمال میں سے زکوة ہی نکال اس میں غریبوں کا بھلا ہو گا تمہیں دعائیں دیں گے۔ خدا تم سے راضی ہوگا، قارون کہتا کہ اگر میں اپنے مال میں سے زکوة نکالوں تو خدا مجھے اس کے بدلے میں کیا دے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تیری آخرت سنور جائے گی وہ موسیٰ پر الزام لگایا کرتا تھا کہ موسیٰ میری دولت چھینا چاہتا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پاکبازی پر بھی دھبہ لگاتا اور بہتان باندھتا تھا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام قارون کے رویہ اور ضد سے بہت پریشان تھے انہیں یقین ہو چکا تھا کہ قارون بھی بھی راہ راست پر نہیں آئے گا بلکہ الٹا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بد نام کرنا شروع کیا اور تکلیفیں پہنچایا کرتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: ”اے ایمان والو ان لوگوں کے مانند نہ ہو جانا جن لوگوں نے موسیٰ کوتکلیفیں، دیں اللہ کے نزدیک موسیٰ نہایت نیک اور پاکباز ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بالکل مایوس ہو چکے تھے ، انہوں نے اللہ سے فریاد کی تو اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ اپنا عصا زمین پر مارو ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے زمین پر عصا مارا تو زمین پھٹ گئی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے زمین سے کہا اے زمین تو قارون کو اپنے اندر سمولے اللہ نے موسیٰ کی دعا سن لی زمین نے اپنا سینہ کھول دیا زمین آہستہ آہستہ پھٹنے لگی قارون ایک ہی بات دہراتا رہا کہ موسیٰ میری دولت پر قبضہ جمانا چاہتا ہے پھر موسیٰ نے فرمایا " اے زمین اس کی دولت کو بھی اپنے اندر سمولے قارون اپنی دولت سمیت ڈھیروں مٹی تلے چلا گیا نہ وہ رہا نہ اس کی دولت اس کے شاندار محل کے آثار بھی مٹ گئے ۔

توریت میں آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے کی بشارت موجود ہے توریت میں لکھا ہوا ہے:

خداوند تیرا خدا، تیرے درمیان تیرے ہی بھائیوں میں میرے مانند ایک نبی بر پا کرے گا تم اس کی طرف کان دھرو ۔ “ ( استخنیا )

میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا، اور جو کچھ میں اس سے کہوں گا

وہ سب ان سے کہے گا ۔ (استثنا )

یہ وہ برکت ہے جو موسیٰ مرد خدا نے اپنے وصال سے پہلے بنی اسرائیل کو بخشی اور اس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلوع ہوا اور فاران کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا اور اس کے داہنے ہاتھ میں آتشین شریعت ہوگی ۔ (استثنا )

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو علم سے بہت محبت تھی اسی لئے وہ علم کی تلاش میں رہتے تھے اور وہ بھی خیال کرتے تھے کہ انہیں بہت زیادہ علم حاصل ہے۔

اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا تم سے زیادہ علم میرے على ایک بندے کے پاس ہے اگر تو جاننا چاہتا ہے تو اس بندے سے ملاقات کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریافت فرمایا ایسا بندہ کون ہے اور کہاں ہے میں اس سے ملنا چاہتا ہوں ، اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے مقام کی طرف اشارہ کیا جہاں دو دریا آپس میں ملتے ہیں۔

چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تلاش کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے، روایات کے مطابق ان کا نام ” خضر علیہ السلام ہے۔ خضر علیہ السلام بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھایا کرتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خضر علیہ السلام سے ملاقات کی، علیک سلیک کے بعد آپس میں باتیں ہوئیں۔ حضرت موسیٰ نے ان سے اپنا مدعا بیان کیا اور کہا کہ جو علم آپ کے پاس ہے میں سیکھنا چاہتا ہوں اس سلسلے میں آپ میری رہنمائی فرمائیں۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا میں جو کچھ کروں آپ مجھ سے نہیں پوچھیں گے، حضرت موسیٰ علیہ السلام اس شرط کو مان گئے اور عہد کیا کہ آپ جو کچھ کریں گے میں نہیں پوچھوں گا، اور نہ مداخلت کروں گا۔ حضرت خضر نے پھر فرمایا کہ میں جو کچھ کروں گا آپ صبر نہیں کر سکیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ، میں صبر کروں گا۔

چنانچہ دونوں روانہ ہوئے اور راستہ طے کرتے رہے دیکھا کہ ساحل سمندر پر کچھ کشتیاں کنارے پر لگی ہوئی ہیں حضرت خضر علیہ السلام نے ان کشتیوں کو توڑ ڈالا ، حضرت موسیٰ علیہ السلام یہ حرکت برداشت نہ کر سکے آخر پوچھ ہی لیا آپ نے ان غریبوں کی کشتیاں کیوں توڑیں یہ تو سراسر نقصان پہنچانے والا کام ہے، حضرت خضر علیہ السلام نے یاد دلایا کہ کیا میں نے پہلےہی آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ صبر نہیں کریں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے، پھر دونوں آگے چلے تو حضرت خضر علیہ السلام نے راستہ میں ایک لڑکے کو جان سے مارڈالا۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بھی زیادہ پریشان ہو گئے۔ اور اعتراض کیا حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ صبر سے کام نہیں لیں گے ۔ پھر دونوں چلتے چلتے ایک گاؤں میں پہنچے یہ جگہ بہت سنسان تھی کچھ لوگ نظر آئے تو حضرت خضر علیہ السلام نے ان سے کھانا طلب کیا تو ان لوگوں نے انکار کیا وہاں پر ایک جگہ دیکھا کہ ایک دیوار ہے بوسیدہ اور کمزور ہے کسی بھی وقت گر سکتی ہے آپ نے اس دیوار کی مرمت کی اور اسے مستحکم کر دیا ، اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے کہا کہ آپ نے یہ دیوار مرمت کی ہم بھو کے پیاسے ہیں اس کام کے لئے آپ مزدوری طلب کر سکتے تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے جواب دیا جو کام خدا کے حکم سے کیا جائے اس کی مزدوری نہیں لی جاتی پھر آپ نے موسیٰ سے فرمایا۔

اے موسیٰ آپ اپنے وعدے پر قائم نہیں رہے اور بار بار پوچھتے رہے اب ہم دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو رہے ہیں جانے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ وہ سب کچھ بتا دوں جو میں نے کیا ہے۔

اے موسیٰ میں نے کشتیوں کو اس لئے تو ڑا کہ وہ کشتیاں غریب ملاحوں ہیں تھیں جن سے وہ روزی کماتے تھے۔ یہاں کا بادشاہ ان کشتیوں کو ان سےچھیننا چاہتا ہے جب ملاحوں کے پاس کشتیاں نہیں رہیں گی تو وہ روزی نہیں کما سکیں گے اس لئے میں نے کشتیاں توڑ دیں بادشاہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں کو نہیں لے گا یہ کشتیاں تھوڑی بہت مرمت کے بعد ٹھیک ہو جائیں گی۔

میں نے لڑکے کو اس لئے مار ڈالا کہ اس کے ماں باپ نہایت نیک اور عبادت گزار ہیں اگر یہ لڑکا اپنی بڑی عمر کو پہنچتا تو زمین پر فتنہ و فساد پھیلاتا اور مخلوق خدا کو اذیتیں پہنچاتا اور ماں باپ کو بدنام کرتا اس لئے میں نے اس کا خاتمہ کر دیا۔

آگے چل کر میں نے دیوار مرمت کی اس میں یتیم بچوں کا مال گڑھا ہوا ہے یہ مال بچوں کے باپ نے ان کے لئے رکھ چھوڑا ہے جب بچے بڑے ہوں گے تو گڑھا ہوا مال نکال لیں گے دیوار مرمت نہ کرنے کی صورت میں گر جانے کا اندیشہ ہے اگر دیوار گر جاتی تو یہاں کے اوباش لوگ دیکھ لیتے اور مال ہتھیا لیتے ۔“ حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام دونوں نے اپنی اپنی راہ لی حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے پاس گئے اور نیک کاموں کی طرف بلایا۔

***********

Comments

Post a Comment

Popular Posts

اچھی صحت کے راز اچھی صحت کے بارے میں میں آج آپکو کچھ ٹیپس بتاتا ہوں جو آپکے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں 01.رات کو جلدی سونا. 02.رات کو سونے سے پہلے ایسا لباس استعمال کرنا جو آپکی نیند میں خلل نہ ڈالے مثال کے طور پر اکثر ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ایسا ڈریس استعمال کرتے ہیں جس سے رات کو انکی نیند میں خلل آتا ہے سکون کی نیند سو نہیں سکتے اسیطرح رات کو سونے سے پہلے کوئی چیز نہ کھائیں اس سے مراد سونے سے کم از کم تین گھنٹے پہلے کوئی چیز کھائیں جو سونے تک آپ کے جسم پے بوجھ نہ رہے بلکہ سونے کے ٹائم تک آپ اسے ڈائی جیسٹ کر لیں 03.سونے سے پہلے پانی کا استعمال کم کرنا تا کہ رات کو سوتے ہوئے آپکی نیند میں خلل نہ آئے کیوں کہ اچھی صحت کا راز اچھی نیند ہے نیند پوری نہ ہو یا بندہ سوتے وقت اگر آرام دہ اپنے آپکو محسوس نہ کرے تو صحت کی خرابی کا باعث بنتا ہے صبح جلدی اٹھنا صحت کے لیے بہت اچھا ہے کیوں کہ صبح کی تازہ ہوا انسان کی زندگی میں مثبت کردار ادا کرتی ہے اس لیے اس بات کا باخوبی آپکو پتا ہونا چاہیے پریشانیوں کو اپنے سے دور رکھنا انسان کے بس میں ہے کہ وہ اپنے آپکو کیسے مینج کرتا ہے اگر تو ہر وقت انسان غصے میں رہے تو بھی اسکی صحت پے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اگر حالات سے بندہ تنگ یو تو اسے چاہیے کے اپنے حالات کو درست کرنے کے لیے ایس جگہ کا انتخاب کرے جہاں اسے ذہنی اور جسمانی سکون ہو کیوں کہ یہ صحت پہ ڈائریکٹ اثر ڈالتا ہے اچھی غذائیں استعمال کرنا سبزیوں کا استعمال زیادہ کرنا کوشش کر کے قدرتی اجزا کو زیادہ ترجیع دینا صاف پانی کا استعمال کرنا تازہ ہوا کے اندر اپنے آپکو زیادہ لے کے جانا آلودگی والے ماحول سے اپنے آپکو بچانا یہ ساری چیزیں اچھی صحت کے لیے کارآمد ثابت ہوتی ہیں