حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ
حضرت یونس علیہ السلام
حضرت یونس علیہ السلام شهر نینوا میں پیغمبر بنا کر بھیجے گئے ۔ آپ لوگوں کو ہدایت کرتے ، نیکی کی طرف بلاتے ، برے کاموں سے روکتے تھے ۔ آپ قوم ثمود کی طرف بھیجے گئے۔ اس قوم کے لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ جب آپ لوگوں کو حق کی طرف بلاتے اور خدائے واحد پر ایمان لانے کی تلقین کرتے لیکن لوگ آپ کی تعلیمات کا انکار کرتے اور حضرت یونس علیہ السلام سے کہتے کہ ہم تیرے خدا کو نہیں مانتے اس پر آپ فرماتے کہ خدا کے عذاب سے ڈرو، جو بہت سخت عذاب ہے لوگ آپ کی باتیں سن کر آپ کا مذاق اڑاتے اور آپ اور آپ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے۔
آپ نے قوم ثمود کو راہ راست پر لانے کی بہت کوششیں کیں لیکن بھٹکی ہوئی قوم پر آپ کی نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوا تو آپ کو یقین ہو گیا کہ یہ لوگ خدا پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ آپ مایوس ہو گئے، مایوسی کی حالت میں آپ نے قوم ثمود کی تباہی و بربادی کے لئے بددعا کی اور اس سرزمین سے نکل پڑے ۔ چلتے چلتے دریائے فرات کے کنارے پہنچے تو دیکھا کہ ایک کشتی کنارے پر لگی ہے لوگ اس پر سوار ہو رہے ہیں ان کی دیکھا دیکھی آپ بھی اس پر سوار ہو گئے جنہیں جانا تھا وہ سب سوار ہو چکے۔کشتی لوگوں سے بھر چکی ، اس کے بعد کشتی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئی ، سمندر پر سکون تھا آسمان بھی صاف تھا مسافر اطمینان سے بیٹھے ہوئے تھے جب کشتی بیچ سمندر میں پہنچی تو دیکھا کہ آسمان پر سیاہ بادل اٹھ رہے ہیں پھر ہوائیں چلنے لگیں ہوا اچانک طوفان کی شکل اختیار کرگئی سمندر میں کشتی ڈگمگانے لگی ، سمندر کی لہریں اوپر نیچے ہونے لگیں بارش بھی شروع ہوگئی، طوفان کے جھٹکوں اور پانی کے تھپیڑوں سے کشتی کے ڈوبنے کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔
کشتی میں بیٹھے ہوئے مسافروں میں سے ایک نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ کشتی میں کوئی ایسا شخص بھی سوار ہے جس سے کوئی بڑی غلطی سرزد ہوگئی ہے، جب تک ایسے شخص کو کشتی سے نہ نکالا جائے کشتی کا صحیح سلامت رہنا محال ہے وہ شخص کون ہے یہ بتانا مشکل ہے جب تک کہ وہ خود کو پیش نہ کرے۔
اس پر حضرت یونس علیہ السلام کھڑے ہو گئے اور کہا کہ میں ہی ہوں بڑی غلطی سرزد ہوگئی ہے مجھے کشتی سے نکال دیا جائے تو آئی ہوئی جس سے بڑی مصیبت ٹل سکتی ہے، تمام مسافر حضرت یونس علیہ السلام کا منہ تک رہے تھے جس نے خود ہی سب کے سامنے اپنی غلطی کا اظہار کیا۔
پھر سب نے ایک زبان ہو کر کہا کہ یہ شخص تو فرشتہ صفت انسان معلوم ہوتا ہے ہم کسی حال میں اسےکشتی سے نہیں نکال سکتے ۔ مسافروں میں سے ایک نے تجویز پیش کی کہ قرعہ اندازی کی جائے جس کا نام پرچی میں نکلے وہی سزا کا مستحق ہوگا ہم اسے کشتی سے نکال دیں گے، چنانچہ قرعہ ڈالا گیا پرچی میں یونس کا نام نکلا ۔ اس عمل سے لوگوں کو اطمینان نہیں ہوا۔
پھر قرعہ ڈالا گیا تو یونس کا ہی نام نکلا ۔ اس طرح یہ عمل بار بار دہرایا گیا ہر بار یہی ہوا حضرت یونس علیہ السلام نے کہا کہ میں اپنے رب کا نافرمان ہوں خدا کا حکم بھی یہی ہے مجھے دریا میں ڈال دو تمام مسافروں کی جان بچ جائے گی۔ حضرت یونس علیہ السلام نے کشتی کے مسافروں سے اور ملات سے بار بار کہا کہ وہ کشتی سے چھلانگ لگانے کے لئے تیار ہیں اس لئے کہ میں نے اللہ کے حکم کا انتظار نہیں کیا۔
آخر کا ر کشتی کے مسافروں اور ملاح نے مان لیا اور حضرت یونس علیہ السلام کو دریا میں پھینک دیا، دریا میں ایک مچھلی حضرت یونس کی طرف بڑھی اور نگل گئی اللہ نے مچھلی سے کہا کہ یہ تیری خوراک نہیں ہے یہ تیرے پیٹ میں امانت ہے جسے واپس کرنا ہے، چنانچہ آپ مچھلی کے پیٹ میں اندھیرے میں رہے، اللہ کا ذکر کرتے رہے اور معافی طلب کرتے رہے۔ آپ پکار رہے تھے اے اللہ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تو پاک ہے بلا شبہ میں نے اپنے ہی نفس پر ظلم کیا میں ظالموں میں سے ہوں ۔اللہ نے آپ کی پکار سن لی۔ آپ مچھلی کے پیٹ میں محفوظ رہے مچھلی نے دریا کے کنارے پر اگل دیا جب آپ مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے تو بہت کمزور اور نڈھال تھے۔ آپ نے کھلی فضا میں سانس لیا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اللہ نے حضرت یونس سے فرمایااگر تو مچھلی کے پیٹ میں میری پاکی بیان نہ کرتا تو نجات حاصل نہ کرتا ۔ جس جگہ پر مچھلی نے آپ کو اگلا تھا وہاں کوئی درخت تھا نہ کوئی سایہ، دھوپ ہی دھوپ تھی۔ گرمی بھی نا قابل برداشت تھی۔ اللہ کے حکم سے وہاں ایک بیل دار پودا اگ آیا۔ پودے کی بیل سے سایہ آگیا ۔ آپ سایہ تلے بیٹھ گئے اور اللہ کا ذکر کرنے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کے پاس ایک ہرنی آتی تھی اور اپنا دودھ پلا جاتی تھی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے بغیر گھاس کی زمین پر ڈال دیا اور وہ بیمار تھا اور ہم نے بیل دار درخت اگایا اور ہم نے اس کو ایک لاکھ آدمی کی طرف بھیجا بلکہ اس سے بھی زیادہ پھر وہ لوگ ان پر ایمان لائے ۔
ملک نینوا چھوڑ دینے کے بعد آپ کی قوم آپ کو بہت زیادہ یاد کرنے لگی۔ آپ کے نکل جانے کے بعد پچھتانے لگی لوگوں نے محسوس کیا کہ آپ نبی تھے اور ہدایت کے لئے آئے تھے ، لوگوں نے اللہ سے معافی طلب کی اور وہ حضرت یونس علیہ السلام کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔ لوگوں نے اقرار کیا کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس بات پر بھی کہ یونس علیہ السلام اللہ کے بھیجے ہوئے نبی ہیں اور آپ کے لائے ہوئے پیغام پر یقین رکھتے ہیں اور یونس علیہ السلام کی تصدیق کرتے ہیں اور قوم کے لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اگر حضرت یونس علیہ السلام ہمارے درمیان آجائیں تو ہم سب ان کی تعظیم کرنے لگیں گے اور ان کے حکم پر عمل کریں گے۔
اللہ نے حضرت یونس علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ قوم کی طرف جائیں اور اللہ کا پیغام سنائیں اور انہیں برائی سے روکیں، نیکی کی طرف بلائیں۔ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے اچھا سلوک کرنے کی تلقین کریں ۔ چنانچہ اللہ کے حکم پر جب آپ اپنی قوم کی طرف لوٹ آئے تو قوم نے خوشی و مسرت کا اظہار کیا آپ علیہ السلام کی آمد پر اللہ کا شکر یہ ادا کیا۔
واپس آکر حضرت یونس علیہ السلام نے تبلیغ شروع کر دی اور ہدایت دینے لگے کہ برے کاموں ۔ اسے دور رہیں ضرورت مندوں کی مدد کریں، بھوکوں کو کھاناکھلائیں ہنگوں کو کپڑا پہنائیں، کسی کے ساتھ برا سلوک نہ کریں۔
*****
Comments
Post a Comment