حضرت شموئیل علیہ السلام کا قصہ
حضرت شموئیل علیہ السلام
اس زمانہ میں حضرت شموئیل علیہ السلام کو اللہ نے نبی بنا کر بھیجا آپ لوگوں کو دین کی دعوت دیتے اور نیک کام کرنے کی تلقین کرتے آپ تو رات کے حافظ تھے بنی اسرائیل کے بہت سے لوگ آپ پر ایمان لے آئے اور آپ کی تعلیمات پر عمل کرنے لگے۔
لوگوں نے حضرت شموئیل علیہ السلام سے التجا کی کہ ہم طاقتوروں سے مغلوب ہو جاتے ہیں وہ ہمارا خون بہاتے ، ہمیں بے گھر کر دیتے ، ہماری اولاد کو غلام بنا لیتے ، ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھا کر عمالقہ ہم سے تابوت سکینہ چھین کر لے گئے ہم کچھ نہ کر سکے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اندر اتنی طاقت پیدا ہو جائے کہ ہم ان سے تابوت سکینہ واپس لے آئیں کافروں نے تابوت سکینہ کو لے جا کر بہت نقصان پہنچانا چاہا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
تابوت سکینہ کی تعریف یہ ہے کہ اس تابوت میں تو رات کے علاوہ حضرت موسیٰ حضرت ہارون کے تبرکات تھے ، اسی لئے اسے مقدس اثاثہ سمجھا جاتا تھا۔ بنی اسرائیل نے شموئیل سے کہا کہ ہمارے لئے کوئی بادشاہ مقرر کریں تا کہ ہم اپنی سلطنت قائم کر سکیں اور بادشاہ کی رہنمائی میں جہاد کر کے دشمنوں کو زیر کر سکیں ۔ حضرت شموئیل نے ان سے کہا کہ مجھے اس بات کا شبہ ہے کہ تم لوگوں کو اگر جہاد کا حکم دیا جائے تو جہاد کے لئے تیار نہ ہو گے تم بزدل اور ڈرپوک ہو چکے ہو۔ اسرائیلیوں نے کہا کہ ہم ضرور لڑیں گے دشمنوں نے ہمیں ہمارے گھروں سے نکال دیا ہے ہمارے بیٹوں کو ہم سے جدا کر دیا ہے، ہمارا دشمن جالوت ہے۔ حضرت شموئیل علیہ السلام نے قوم بنی اسرائیل سے کہا کہ اللہ تعالی طالوت کو تم پر بادشاہ مقرر کرے گا اسرائیلیوں نے کہا کہ طالوت تو غریب ہے اور معمولی آدمی ہے ہمارے پاس دولت بھی ہے اور عزت بھی ہے طالوت کو ہم پر کس طرح بادشاہ مقرر کیا جائے گا ۔ حضرت شموئیل علیہ السلام نے کہا کہ طالوت کے پاس علم ہے اور قوت ہے اللہ تعالیٰ علم والے اور قوت والے کو پسند کرتا ہے لوگوں نے کہا کہ اس کی بادشاہی کی کیا نشانی ہے حضرت شموئیل نے جواب دیا کہ طالوت قوت والا ہے وہ تنہا جا کر عمالقہ سے تابوت سکینہ تم کو لا کر دے گا۔
اس کے بعد شموئیل نے طالوت سے جا کر کہا کہ اللہ نے بنی اسرائیل پر تمہیں بادشاہ مقرر کیا ہے تم جالوت سے جنگ کرو اور عمالقہ سے تابوت لے کر آؤ ۔ حضرت طالوت جنگ کے لئے تیار ہو گئے جنگ میں شامل کرنے کے لئے لوگوں کو جمع کیا۔ اور کہا کہ جالوت ظالم ہے ہم اس سے جہاد کریں گے اور تابوت سکینہ بھی واپس لائیں گے کیا تم سب جہاد کے لئے جانے کے لئے تیار ہو۔ قوم اسرائیل نے کہا کہ ہم کیوں نہ جہاد کریں گے جہاد میں شامل ہونے کے لئے بہت بڑی تعداد میں لوگ طالوت کے پاس گئے اور جہاد میں شرکت کرنے کی خواہش ظاہر کی طالوت جانتے تھے کہ قوم بنی اسرائیل بزدل ہے طالوت نے ان سے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ تمہارے حوصلے پست ہیں تم میدان جنگ میں ٹھہر نہ سکو گے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ میں تمہیں آزمائش میں ڈالوں جہاد میں جانے کے لئے تمہیں کڑے امتحان سے گزرنا ہوگا جو لوگ اس آزمائش میں پورے اتریں گے وہی دشمن کا مقابلہ کر سکیں گے ۔
طالوت نے جہاد میں جانے والوں سے کہا کہ جب دشمن کا مقابلہ کرنے چلو گے تو تم دیکھو گے کہ راستے میں ایک نہر بہہ رہی ہے پانی دیکھ کر تم لوگوں کو پیاس محسوس ہوگی جو لوگ اس نہر کا پانی پئیں گے وہ ہمارا ساتھ نہیں دے سکیں گے، ہاں اگر حلق تر کرنے کے لئے چلو بھر کر پٹو گے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے چنانچہ طالوت کی اس شرط کو سن کر بہت سے لوگ حوصلہ ہار گئے اور واپس لوٹ گئے جن لوگوں کا ایمان پختہ تھا وہ طالوت کے ساتھ روانہ ہوئے راستہ میں ایک نہر ملی کچھ لوگ پیاس برداشت نہ کر سکے وہ پیٹ بھر کر پانی پی گئے ایسے لوگوں کو طالوت نے بیحدہ کر دیا جن لوگوں نے پیاس برداشت کی وہ طالوت کی فوج میں رہے دشمن سے مقابلہ کے لئے راستہ طے کرتے رہے، وہ اللہ پر پختہ یقین رکھتے تھے اور ایمان والے تھے۔
جالوت کو اطلاع مل چکی تھی کہ طالوت فوج لے کر مقابلہ کے لئے آ رہے ہیں اس لئے وہ بھی اپنی جگہ سے فوج لے کر لڑنے کے لئے چل پڑا۔ اور میٹر ان جنگ میں پہنچ گیا جب جالوت اور طالوت کا آمنا سامنا ہوا تو
دیکھا گیا کہ جالوت کی فوج کثیر تعداد میں ہے طالوت کی فوج میں سے کچھ اسرائیلی خوف زدہ ہو کر طالوت سے کہنے لگے کہ جالوت بھاری فوج لے کر آیا ہے ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ ہم تو ان کے مقابلے میں بہت کمزور ہیں طالوت نے سن کر ان کو بھی رخصت کر دیا۔ جو لوگ ایمان لا چکے تھے انہوں نے طالوت کا ساتھ نہ چھوڑا ان کا عقیدہ تھا کہ فتح اور شکست اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جم گئے طالوت نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ہمارے قدم جمائے رکھ اور ہمیں صبر عطا کر اور کافروں پر فتح دئے۔
جالوت نے پوری تیاری کے ساتھ آ کر مخاطب ہو کر بنی اسرائیل کے کسی ایک آدمی کو مقابلہ کے لئے بلایا طالوت کی فوج میں حضرت داؤد بھی تھے ، جو ابھی چھوٹی عمر کے بچہ تھے کمسنی کے باعث لڑنے کی غرض سے نہیں آئے تھے جب جالوت نے آواز دے کر للکارا تو حضرت داؤد توقع کے خلاف بہادری کے ساتھ آگے بڑھے اور جالوت کا کام تمام کر دیا جو نہی جالوت ہلاک ہوا، جالوت کی فوج کے قدم میدان سے اکھڑ گئے اور بھاگنے لگے میدان طالوت کے ہاتھ آیا۔ حضرت داؤد کی جرات اور بہادری دیکھ کر اسرائیلیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ داؤد ہر دلعزیز بن گئے ۔ داؤ د جب پختہ عمر کو پہنچے تو اللہ نے انہیں نبی بنایا اور داؤد پر زبور نازل کی آپ نے بنی اسرائیل کی رہنمائی کی آپ بادشاہ بھی تھے اللہ نے آپ کو خلیفہ کے لقب سے نوازا۔
*******
Comments
Post a Comment