اشتراکی نظام کے بارے میں معلومات
اشتراکی نظام پر تبصرہ
پہلے اشتراکیت پر تبصرہ کرنا اس لحاظ سے مناسب ہے کہ اس کی خرابیوں کو سمجھنا نسبتا آسان ہے۔ اشتراکیت کی اتنی بات تو واقعی درست تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ذاتی منافع کے محرک کو اتنی کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ اس کے نتیجے میں فلاحعامہ کا تصور یا تو بالکل باقی نہیں رہا، یا بہت پیچھے چلا گیا، لیکن اس کا جو حل اشتراکیت نے تجویز کیا وہ بذات خود بہت انتہا پسندانہ تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے فرد کو اتنا آزاد اور بے لگام چھوڑ دیا تھا کہ وہ اپنے منافع کے خاطر جو چاہے کرتا پھرے، اس کے مقابلے میں اشتراکیت نے فرد کو اتنا گھونٹ دیا کہ اس کی فطری آزادی بھی سلب ہو کر رہ گئی ۔ سرمایہ دارانہ نظام نے بازار کی قوتوں یعنی رسد و طلب کو تمام مسائل کا حل قرار دیا، لیکن اشتراکیت نے ان قدرتی قوانین کو تسلیم کرنے ہی سے انکار کر دیا، اور اس کی جگہ سرکار کی طرف سے کی ہوئی منصوبہ بندی کو ہر مرض کا علاج قرار دیا، حالانکہ انسان کی اپنی وضع کی ہوئی منصوبہ بندی ہر جگہ کام نہیں دیتی اور بہت سے مقامات پر اس کا نتیجہ ایک مصنوعی جکڑ بند کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا۔
انسان کو اپنی زندگی میں بہت سے معاشرتی مسائل پیش آتے ہیں، ان سب مسائل کو پلاننگ کی بنیاد پر حل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک معاشرتی مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر مرد کو شادی کے لئے مناسب بیوی درکار ہے، اور عورت کو مناسب شوہر، یہ معاشرتی مسئلہ ابتدائے آفرینش سے آج تک لوگوں کی ذاتی پسند و ناپسند اور لوگوں کے ذاتی فیصلوں کی بنیاد پر طے ہوتا رہا ہے۔ ہر شخص اپنے لئے مناسب رفیق حیات تلاش کرتا ہے اور جس پر دونوں کا اتفاق ہو جائے، شادی عمل میں آجاتی ہے۔ اس نظام کے نتیجے میں بے شک بعض خرابیاں سامنے آئیں، مثلاً یہ ذاتی فیصلہ بعض اوقات غلط بھی ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں نا چاتی اور نا اتفاقی پیدا ہو جاتی ہے، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی عورت یا کوئی مرد اس لئے نکاح سے محروم رہ جاتا ہے کہ اس کی طرف کسی کو کوئی کشش نہیں ہوتی، لیکن ان خرابیوں کا یہ علاج آج تک کسی نے نہیں سوچا کہ شادیوں کے نظام کو ذاتی پسند اور ناپسند کے بجائے سرکار کے حوالے کر دینا چاہئے، و ہی منصوبہ بندی کرے کہ کتنے مرد اور کتنی عورتیں ہیں، اور کونسا مرد کسی عورت کے زیادہ مناسب ہے۔ اگر کوئی حکومت یا ریاست اس قسم کی کوئی منصوبہ بندی کرنا چاہے تو ظاہر ہے کہ یہ ایک غیر فطری اور مصنوعی نظام ہوگا ، جس سے کبھی خوش گوار نتائج برآمد نہیں ہو سکتے۔
اسی طرح یہ مسئلہ کہ انسان کونسا پیشہ اختیار کرے؟ پیدائش کے کس عمل میں کتنا حصہ لے؟ یا کس انداز سے اپنی خدمات معاشرے کو پیش کرے؟ در حقیقت ایک معاشرتی مسئلہ ہے، اس مسئلے کو اگر صرف خشک منصوبہ بندی کی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس سے مندرجہ ذیل خرابیاں لازم آئیں گی۔
منصوبہ بندی کا کام ظاہر ہے کہ اشتراکی نظام میں حکومت انجام دیتی ہے، اور حکومت فرشتوں کے کسی گروہ کا نام نہیں، جس سے کوئی غلطی یا بد دیانتی سرزد نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ حکومت کرنے والے بھی گوشت پوست کے انسان ہوتے ہیں، وہ اپنی خواہشات اور ذاتی مفادات سے بھی مغلوب ہو سکتے ہیں، اور ان کی سوچ میں بھی غلطی کا امکان ہے۔ دوسری طرف جب سارے ملک کے تمام وسائل پیداوار انسانوں کے اس گروہ کے حوالے کر دیئے گئے تو ان کی نیت میں فتور آنے کی صورت میں اس کےنتائج پوری قوم کو بھگتنے پڑیں گے۔ اگر سرمایہ دارانہ نظام میں ایک چھوٹا سرمایہ دار محدود وسائل پیداوار پر ملکیت حاصل کر کے چند افراد کو ظلم کا نشانہ بنا سکتا ہے تو اشتراکی نظام میں چند بر سر اقتدار افراد پورے ملک کے وسائل پر قابض ہو کر اس سے کہیں زیادہ علم کر سکتے ہیں، اور اس کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ بہت سارے چھوٹے چھوٹے سرمایہ دارختم ہو جائیں اور ان سب کی جگہ ایک بڑا سرمایہ دار وجود میں آجائے جو دولت کے سارے وسائل کو من مانے طریقے سے استعمال کرے۔
اشتراکیت کا منصوبہ بند نظام ایک انتہائی طاقت ور بلکہ جابر حکومت کے بغیر نہ قائم ہو سکتا ہے اور نہ چل سکتا ہے، کیونکہ افراد کو ہمہ گیر ریاست کی منصوبہ بندی کے تابع بنانے کے لئے ریاستی جبر لازم ہے، کیونکہ ہر شخص کو اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کے بجائے ریاستی منصوبہ بندی کے تحت کام کرنا پڑتا ہے، اس لئے یہ منصوبہ بندی ایک زبردست قوت قاہرہ کے بغیر کام نہیں کر سکتی۔ چنانچہ اشتراکی نظام میں سیاسی آزادیوں کا خاتمہ لازمی ہے، اور اس طرح فرد کی آزادی بہر طور پچھلی جاتی ہے۔
چونکہ اشتراکیت میں ذاتی منافع کے محرک کا بالکل خاتمہ کر دیا جاتا ہے، اس لئے لوگوں کی کارکردگی پر اس کا بُرا اثر پڑتا ہے۔ انسان یہ سوچتا ہے کہ وہ خواہ چستی اور محنت اور امیچ کے ساتھ کام کرے یاستی اور کاہلی کے ساتھ، دونوں صورتوں میں اس کی آمدنی یکساں ہے، اس لئے اس میں بہتر کارکردگی کا ذاتی جذبہ برقرار نہیں رہتا۔ ذاتی منافع کا محرک علی الاطلاق بُری چیز نہیں، بلکہ اگر وہ اپنی حد میں ہو تو انسان کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرتا ہے اور اسے نت نئی مہم جوئی پر آمادہ کرتا ہے، اس فطری جذبے کو حد میں رکھنے کے لئے لگام دینے کی بے شک ضرورت ہے، لیکن اس کو بالکلیہ کچل دینے سے انسان کی بہت سی صلاحیتیں ضائع ہو جاتی ہیں۔
یہ تمام خرابیاں محض نظریاتی نوعیت کی نہیں ہیں، بلکہ اشتراکیت کی پہلی تجربہ گاہ روس میں چوہتر سال کے تجربے نے یہ تمام خرابیاں پوری طرح ثابت کر دی ہیں۔ ایک زمانے میں ابھی کچھ عرصہ پہلے تک اشتراکیت اور نیشنلائزیشن کا طوطی بولتا تھا، اور جو شخص اس کے خلاف زبان کھولتا اسے رجعت پسند اور سرمایہ دار کا ایجنٹ کہا جاتاتھا، لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے موقع پر خود روس کے صدر یلسن نے کہا کہ :۔
کاش! اشتراکیت نظریے کا تجربہ روس جیسے عظیم ملک میں کرنے کے بجائے افریقہ کے کسی چھوٹے رقبے میں کر لیا گیا ہوتا، تاکہ اس کی تباہ کاریوں کو جاننے کے لئے چوہتر سال نہ لگتے ۔ (نیوز و یک)
************
Comments
Post a Comment