سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں اہم معلومات

سرمایہ دارانہ نظام پر تبصرہ

 اشتراکیت کی ناکامی کے بعد سرمایہ دار مغربی ممالک میں بڑے شدومد کے ساتھ بغلیں بجائی جارہی ہیں اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ چونکہ اشتراکیت عمل کی دُنیا میں ناکام ہو گیا، اس لئے سرمایہ دارانہ نظام کی حقانیت ثابت ہوگئی ۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اشتراکیت کی ناکامی کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مروجہ سرمایہ دارانہ نظام برحق تھا، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اشتراکیت نے سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقی غلطیوں کی اصلاح کے بجائے ایک دوسرا غلط راستہ اختیار کر لیا، لہذا اب سرمایہ دارانہ نظام کی فکری غلطیوں کو زیادہ باریک بینی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔

دراصل بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی فلسفے میں اس حد تک تو بات درست تھی کہ معاشی مسائل کے حل کے لئے ذاتی منافع کے محرک اور بازار کی قوتوں یعنی رسد وطلب سے کام لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ انسانی فطرت کا تقاضاہے، لیکن غلطی در حقیقت یہاں سے لگی ہے کہ ایک فرد کو زیادہ ۔ ہے کہ ایک فرد کو زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کی بے لگام آزادی دی گئی، جس میں حلال و حرام کی کوئی تفریق نہیں تھی، اور نہ اجتماعی فلاح کی طرف خاطر خواہ توجہ تھی، چنانچہ اس کے لئے ایسے طریقے اختیار کرنا بھی جائز ہو گیا جن کے نتیجے میں وہ زیادہ سے زیادہ دولت مند بن کر با ر بازار پر اپنی اجارہ داری قائم کرلے ۔ اجارہ داری کا مطلب یہ ہے کہ کسی خاص چیز کی رسد فراہم کرنا ایک شخص یا ایک گروپ میں منحصر ہو کر رہ جائے ، یعنی صورت حال ایسی پیدا ہو جائے کہ اس شخص یا گروپ کے سوا کوئی اور وہ چیز پیدا نہ کر پائے۔ اس اجارہ داری کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ وہ چیز اس کی مقرر کی ہوئی من مانی قیمت پر لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔

انسان کے ذاتی منافع کے محرک کو کلی چھوٹ دینے اور اس پر ضرورت سے زیادہ زور دینے کے نتیجے میں جو خرابیاں سرمایہ دار معاشرے میں پیدا ہوئیں، وہ مختصرا حسب ذیل ہیں ۔

چونکہ منافع کے حصول کے لئے حلال و حرام کی کوئی تفریق نہیں تھی ، اس لئے اس سے بہت سی اخلاقی برائیاں معاشرے میں پھیلیں، اس لئے کہ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کا محرک اکثر لوگوں کے سفلی جذبات کو اپیل کرکے ان کی غلط خواہشات کی تسکین کا سامان فراہم کرتا ہے، جس سے معاشرے میں اخلاقی بگاڑ پھیلتا ہے۔ چنانچہ مغربی ممالک میں عریانی اور فحاشی کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے، عریاں تصاویر اور فلموں کا ایک سیلاب ہے جسے معاشرے میں پھیلا کر لوگ ذاتی منافع کے محرک کی تسکین کر رہے ہیں، عورتیں اپنے جسم کا ایک ایک عضو اس محرک کے تحت بازار میں فروخت کر رہی ہیں۔ ابھی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سروسز کے کاروبار میں سب سے زیادہ نفع بخش کاروبار ماڈل گرلز کا ہے، جو اپنی تصویر میں صنعت کاروں کو اپنی مصنوعات پر چھاپنے کے لئے یا اشتہار کا حصہ بنانے کے لئے فراہم کرتی ہیں، اور اس کا بہت بھاری معاوضہ وصول کرتی ہیں، یہاں تک کہ ان کا طبقہ امریکہ کے سب سے زیادہ کمانے والوں میں شامل ہے۔ ظاہر ہے کہ ان پر جو لاکھوں ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں وہ بالآخر پیداوار کی لاگت میں شامل ہو کر عام صارفین کی جیب پر پڑتے ہیں٬اور اس طرح پوری قوم ان بد اخلاقیوں کی مالی قیمت بھی ادا کرتی ہے۔ چونکہ ذاتی منافع کے حصول پر کوئی خاص اخلاقی پابندی عائد نہیں، اس لئے ترجیحات کے تعین اور وسائل کی تخصیص میں اجتماعی مصالح کا کما حقہ لحاظ نہیں ہو پاتا ، جب زیادہ منافع کا حصول ہی منتہائے مقصود ٹھہرا تو اگر یہ زیادہ منافع عریاں فلموں کے ذریعے حاصل ہو رہا ہو تو ایک شخص بے گھر لوگوں کو مکان فراہم کرنے میں روپیہ کیوں لگائے؟ جبکہ مقابلتا اس میں نفع کم ہو۔

ذاتی منافع کے محرک پر حلال و حرام کی پابندی نہ ہونے کی وجہ سے سود، تمار، سٹہ وغیرہ سب سرمایہ دارانہ نظام میں جائز ہیں، حالانکہ یہ وہ چیزیں ہیں کہ جو معیشت کے فطری توازن میں بگاڑ پیدا کرتی ہیں، جس کا ایک مظاہرہ یہ ہے کہ ان کے نتیجے میں بکثرت اجارہ داریاں قائم ہو جاتی ہیں، اور ان اجارہ داریوں کی موجودگی میں بازار کی فطری قوتیں یعنی رسد و طلب کے قوانین مفلوج ہو جاتے ہیں اور کما حقہ کام نہیں کر پاتے ۔ یعنی ایک طرف تو سرمایہ دارانہ نظام کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم مارکیٹ کی قوتوں یعنی رسد و طلب سے کام لینا چاہتے ہیں، اور دوسری طرف ذاتی منافع کے محرک کو بے مہار چھوڑ کر اس میں اجارہ داریوں کے مواقع فراہم کئے گئے ہیں، جن سے رسد و طلب کی قوتیں ناکارہ یا بے اثر ہو جاتی ہیں۔

اس کی تھوڑی سی تشریح یہ ہے کہ رسد و طلب کی قوتیں معیشت میں توازن پیدا کرنے کے لئے اس وقت کارآمد ہوتی ہیں جب بازار میں آزاد مقابلے کی فضا ہو، لیکن جب کسی شخص کی اجارہ داری قائم ہو جائے تو قیمتوں کا نظام متوازن نہیں رہتا اور معیشت . کے چار بنیادی مسائل کے بارے میں ہونے والے فیصلے معاشرے کی حقیقی ضرورت اور طلب کی عکاسی نہیں کرتے، اور یہاں بھی ایک مصنوعی نظام وجود میں آجاتا ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھیں،مثلاً چینی کی پیداوار ضرورت کے مطابق اتنی ہونی چاہئے کہ بازار میں اس کی مناسب قیمت رسید و طلب کے ذریعے متعین ہو جائے، لیکن مناسب قیمت پر تعین اسی وقت ممکن ہے جب چینی بنانے کے لئے مختلف کارخانے موجود ہوں، اور خریدنے والے کو یہ اختیار ہو کہ اگر ایک کارخانے کی چینی مہنگی ہے تو وہ دوسرے کارخانے سے خرید سکے۔ اگر بازار میں یہ مقابلے کی فضا ہو تو کوئی بھی کارخانہ قیمت کے تعین میں من مانی نہیں کر سکتا، اس صورت میں بازار میں چینی کی جو ایک قیمت متعین ہوگی وہ واقعتاً طلب و رسد کے توازن سے وجود میں آئے گی اور متوازن قیمت ہوگی۔ لیکن اگر ایک می شخص چینی کے کاروبار کا اجارہ دار بن گیا اور لوگ صرف اسی سے چینی خرید نے پر مجبور ہیں تو پھر لوگوں کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں ہوتا کہ اس کی مقرر کی ہوئی قیمت پر چینی خریدیں ۔ ایسی صورت میں چینی کی جو قیمت ہوگی وہ یقیناً اس صورت سے زیادہ ہوگی جب بازار میں ایک سے زیادہ چینی فراہم کرنے والے ہوتے ، اور ان میں تجارتی مقابلہ ہوتا ۔ فرض کیجئے کہ آزاد مقابلے کی صورت میں چینی کی قیمت ۸ روپے کلو ہوتی، تو اجارہ داری کی صورت میں وہ دس یا بارہ روپے کلو ہوسکتی ہے، اب اگر لوگ بارہ روپے میں چینی خرید رہے ہیں تو یہ معاملہ ان کی حقیقی طلب کی نمائندگی نہیں کر رہا ہے، بلکہ ایک مصنوعی صورت حال کی نمائندگی کر رہا ہے جو چینی کے ایک تاجر کی اجارہ داری سے پیدا ہوئی، اور اس طرح اجارہ داری نے حقیقی طلب و رسد کے نظام کو بگاڑ دیا۔

لہذا اگر چہ یہ کہنا درست تھا کہ معاشی مسائل کا فیصلہ بڑی حد تک طلب ورسید کی طاقتوں کو کرنا چاہئے، لیکن اس مقصد کے حصول کے لئے جب ذاتی منافع کے محرک کو حلال و حرام کی تفریق کے بغیر بے مہار چھوڑا گیا تو اس نے اجارہ داریاں قائم کر کے خود طلب و رسد کی قوتوں کو ٹھیک ٹھیک کام کرنے سے روک دیا، اور اس طرح سرمایہ دارانہ نظام کے ایک اُصول نے عملاً خود اپنے دوسرے اُصولوں کی نفی کر دی۔ اگر چہ سرمایہ دارانہ نظام کا اصل تصور یہ تھا کہ کاروبار اور تجارت میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہو، لیکن رفتہ رفتہ تجربات سے گزرنے کے بعد عملا یہ اُصول پوری طرح برقرار نہیں رہ سکا، تقریبا تمام سرمایہ دارانہ ممالک میں حکومت کی طرف سے کچھ نہ کچھ مداخلت ہوتی رہی ہے۔ مثلاً حکومت مختلف قوانین کے ذریعے بالخصوص ٹیکسوں کے ذریعے کسی تجارت کی ہمت افزائی اور کسی کی ہمت شکنی کرتی رہی ہے، اور اب شاید کوئی سرمایہ دار ملک ایسا نہیں ہے جس میں کاروبار اور تجارت پر حکومت کی طرف سے کوئی نہ کوئی پابندی عائد نہ ہو۔ لہذا حکومت کی عدم مداخلت کے اصول پر صحیح طور سے عمل کرنے والا دنیا میں کوئی ملک موجود نہیں۔ لیکن حکومت کی

یہ مداخلتیں بسا اوقات تو نوکر شاہی اور سرمایہ داروں کے باہمی گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہوتی ہیں، جن کا فائدہ صرف با اثر سرمایہ داروں کو پہنچتا ہے اور اس کی وجہ سے اجتماعی فلاح و بہبود حاصل نہیں ہوتی، اور اگر یہ پابندیاں اس قسم کے گٹھ جوڑ اور بددیانتی سے خالی ہوں تب بھی وہ خالص سیکولر سوچ پر مبنی ہوتی ہیں، اپنی عقل کی روشنی میں جو پابندی مناسب سمجھی لگادی، حالانکہ تنہا عقل تمام با عقل تمام انسانی مسائل حل کرنے کے لئے ناکافی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ پابندیاں معاشی ناہمواریوں کا صحیح علاج نہیں بن سکیں۔

 سرمایہ دارانہ نظام میں خاص طور پر تقسیم دولت کا نظام ناہمواری کا شکار رہتا ہے، اس ناہمواری کا ایک بڑا سبب سود اور قمار ہے، اس کے نتیجے میں دولت کے بہاؤ کا رُخ امیروں کی طرف رہتا ہے، غریبوں اور عوام کی طرف نہیں ہوتا۔ اس کی پوری تشریح ان شاء الله تقسیم دولت پر گفتگو کرتے ہوئے آگے آئے گی۔

************

Comments

Popular Posts

اچھی صحت کے راز اچھی صحت کے بارے میں میں آج آپکو کچھ ٹیپس بتاتا ہوں جو آپکے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں 01.رات کو جلدی سونا. 02.رات کو سونے سے پہلے ایسا لباس استعمال کرنا جو آپکی نیند میں خلل نہ ڈالے مثال کے طور پر اکثر ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ایسا ڈریس استعمال کرتے ہیں جس سے رات کو انکی نیند میں خلل آتا ہے سکون کی نیند سو نہیں سکتے اسیطرح رات کو سونے سے پہلے کوئی چیز نہ کھائیں اس سے مراد سونے سے کم از کم تین گھنٹے پہلے کوئی چیز کھائیں جو سونے تک آپ کے جسم پے بوجھ نہ رہے بلکہ سونے کے ٹائم تک آپ اسے ڈائی جیسٹ کر لیں 03.سونے سے پہلے پانی کا استعمال کم کرنا تا کہ رات کو سوتے ہوئے آپکی نیند میں خلل نہ آئے کیوں کہ اچھی صحت کا راز اچھی نیند ہے نیند پوری نہ ہو یا بندہ سوتے وقت اگر آرام دہ اپنے آپکو محسوس نہ کرے تو صحت کی خرابی کا باعث بنتا ہے صبح جلدی اٹھنا صحت کے لیے بہت اچھا ہے کیوں کہ صبح کی تازہ ہوا انسان کی زندگی میں مثبت کردار ادا کرتی ہے اس لیے اس بات کا باخوبی آپکو پتا ہونا چاہیے پریشانیوں کو اپنے سے دور رکھنا انسان کے بس میں ہے کہ وہ اپنے آپکو کیسے مینج کرتا ہے اگر تو ہر وقت انسان غصے میں رہے تو بھی اسکی صحت پے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اگر حالات سے بندہ تنگ یو تو اسے چاہیے کے اپنے حالات کو درست کرنے کے لیے ایس جگہ کا انتخاب کرے جہاں اسے ذہنی اور جسمانی سکون ہو کیوں کہ یہ صحت پہ ڈائریکٹ اثر ڈالتا ہے اچھی غذائیں استعمال کرنا سبزیوں کا استعمال زیادہ کرنا کوشش کر کے قدرتی اجزا کو زیادہ ترجیع دینا صاف پانی کا استعمال کرنا تازہ ہوا کے اندر اپنے آپکو زیادہ لے کے جانا آلودگی والے ماحول سے اپنے آپکو بچانا یہ ساری چیزیں اچھی صحت کے لیے کارآمد ثابت ہوتی ہیں