سرمایہ دارانہ نظام کے اصول کیا ہیں
سرمایہ دارانہ نظام کے اُصول
-:سرمایه دارانہ نظام کے بنیادی اُصول تین ہیں
(Private Property)ذاتی ملکیت
پہلا اصول یہ ہے کہ اس نظام میں ہر انسان کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ذاتی ملکیت میں اشیاء بھی رکھ سکتا ہے اور وسائل پیداوار بھی رکھ سکتا ہے۔ اشتراکی نظام میں اگرچہ ذاتی استعمال کی اشیاء تو ذاتی ملکیت میں آسکتی ہیں لیکن وسائل پیداوار مثلاً زمین یا کارخانہ عموماً ذاتی ملکیت میں نہیں ہوتے، البتہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر قسم کی چیز چاہے وہ استعمالی اشیاء سے تعلق رکھتی ہو یا اشیائے پیداوار میں سے ہو وہ ذاتی ملکیت میں آسکتی ہے۔
(Profit Motive)ذاتی منافع کا محرک
دوسرا اصول یہ ہے کہ پیداوار کے عمل میں جو محرک کارفرما ہوتا ہے وہ ہرانسان کے ذاتی منافع کے حصول کا محرک ہوتا ہے۔
(Laissez Faire)حکومت کی عدم مداخلت
سرمایہ دارانہ نظام کا تیسرا اصول یہ ہے کہ حکومت کو تاجروں کی تجارتی سرگرمیوں میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے، وہ جس طرح کام کر رہے ہیں ان کی معاشی سرگرمی میں رکاوٹ نہ ڈالنی چاہئے، نہ ان پر حکومت کی طرف سے زیادہ پابندیاں عائد کرنی چاہئیں۔ عام طور پر اس اصول کے لئے لائسز فیئر کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، اصل میں یہ فرانسیسی لفظ ہے یعنی ”حکومت کی عدم مداخلت کی پالیسی اور اس کے معنی ہیں " کرنے دو“ یعنی حکومت سے یہ کہا جارہا ہے کہ جو لوگ اپنی معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہیں وہ جس طرح بھی کام کر رہے ہیں ان کو کرنے رو، اس میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالو ۔ اور حکومت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ لوگوں سے کہے کہ فلاں کام کرو، فلاں کام نہ کرو، اور نہ یہ حق ہے کہ وہ یہ کہے کہ اس طرح تجارت کرد. اس طرح نہ کرو۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا تیسرا اصول ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کا اصل بنیادی فلسفہ یہی ہے۔
اگر چہ بعد میں خود سرمایہ دارانہ ممالک میں رفتہ رفتہ اس پالیسی کو محدود کر دیا گیا اور عملاً ایسا نہیں ہوا کہ حکومت بالکل مداخلت نہ کرے، بلکہ حکومت کی طرف سے بہت کی پابندیاں سرمایہ دارانہ ممالک میں نظر آئیں گی، مثلاً کبھی ٹیکسوں کے ذریعے بہت کی پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں، یا کسی کام کی ہمت افزائی کے لئے حکومت بہت سے اقدامات کرتی ہے۔ آج پوری دنیا میں کوئی ملک ایسا موجود نہیں ہے جس میں تجارت کے اندر حکومت کی بالکل مداخلت موجود نہ ہو، لیکن سرمایہ دارانہ معیشت کا بنیادی فلسفہ یہی تھا کہ حکومت مداخلت نہ کرے، بلکہ تاجروں کو کھلی چھٹی دیدے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ "سب سے اچھی حکومت وہ ہے جو کم حکومت کرے یعنی مداخلت نہ کرے۔
چونکہ سرمایہ دارانہ معیشت میں ذاتی منافع کا محرک کارفرما ہوتا ہے اس لئے اس کو سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں اور اس کا دوسرا نام مارکیٹ اکانومی یعنی بازار پر جنی معیشت، اس لئے اس میں مارکیٹ کی قوتوں یعنی رسد اور طلب سے کام لیا جاتا ہے۔
***
Comments
Post a Comment