بزنس میں ترقی کیسے ممکن ہے
Good to Great
مصنف کا تعارف
کتاب گڈ ٹو گریٹ کے مصنف جم کولنز مینجمنٹ سائنس کے ماہر ہیں جو امریکہ میں ایک انتظامی ریسرچ لیبارٹری کے بانی ہیں۔ انہوں نے دس سال سے زائد عرصہ تک بزنس کمپنیوں پر ریسرچ کی ہے کہ کیسے ایک اچھی کمپنی عظیم کمپنی بنتی ہے ۔ اس کے علاوہ وہ امریکہ میں کئی نامی گرامی کا روباری کمپنیوں کے سی ای اوز کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ اس کتاب سے پہلے بزنس پر دو اور کتا میں بعنوان Built to Last اور Beyond تصنیف کرچکے ہیں۔ Entrepreneurship
کتاب کا تعارف
کیا ایک اوسط درجے کی کمپنی ایک عظیم کمپنی بن سکتی ہے؟ اگر ایسا ممکن ہے تو یہ عمل کیسے وقوع پذیر ہوتا ہے؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے جم کولن نے دس سال تک 1435 کمپنیوں کے چالیس سالہ ریکارڈ پر تحقیق کی۔ اس تحقیق کے نتیجے میں گیارہ کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی۔
ان تمام کمپنیوں کے شیئرز میں مد مقابل کمپنیوں کے مقابلے میں پندرہ سال کےدوران 9.6 گنا اضافہ ہوا۔ دوسرے الفاظ میں کہہ جا سکتا ہے کہ ان تمام کمپنیوں نے گڈ سے گریٹ کا سفر مسلسل بہترین کارکردگی کی بدولت طے کیا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام کمپنیاں کیسے عظیم کمپنیاں بنی ؟ کیا دوسری کمپنیاں ان کے نقش قدم پر چل کر عظیم کمپنیاں بن سکتی ہیں؟
اس سوال کا جواب بہت حیران کن تھا کیونکہ نہ تو ان کمپنیوں نے کوئی بڑی تبدیلیاں کی تھیں اور نہ کوئی معجزہ رونما ہوا تھا بلکہ بہترین انتظامی ٹیم اور محنت کی بدولت بام عروج پر پہنچی تھیں۔
کتاب کے اہم نکات
جم کولن اور اس کی ٹیم کی ریسرچ کے مطابق گیارہ کمپنیوں کی گڈ سے گریٹ بنے کی بنیاد تین نکات پر تھی اور انھوں نے انہیں تین نکات سے چھ اصول وضع کیے جواب سدا بہار اصولوں کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ ان اصولوں پر عمل کر کے کوئی بھی کمپنی عظیم کمپنی بن سکتی ہے۔ وہ یہ ہیں۔
منظم لوگ : موزوں لوگوں کو کمپنی میں لانا اور ان کے ذریعے بام عروج حاصل کرنا۔
قیادت کے پانچ درجے
پہلے کون ، پھر کیا
منظم سوچ: اپنے مقصد سے بے رحمی کی حد تک مخلص ہونا اور کسی بھی رکاوٹ کو خاطرمیں نہ لانا۔
درست حقائق کا سامنا کرنا
بنیادی سوچ
منظم عمل : اس بات کا تعین کرنا کہ منزل تک پہنچنے کیلئے کیا اہم ہے اور کیا نہیں ۔
نظم وضبط کا کلچر
ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال
گڈ٬گریٹ کا دشمن ہے
جم کولن کے مطابق گڈ گریٹ کا دشمن ہے۔ گڈ پر سمجھوتہ کرنا ہی دراصل گریٹ کی موت ہے۔ ہمارے پاس گریٹ سکول نہیں ہیں کیونکہ ہمارے پاس اچھے سکول ہیں٬ہمارے پاس گریٹ اسپتال نہیں ہیں کیونکہ ہمارے پاس اچھے اسپتال ہیں۔ اسی طرحبہت کم لوگ عظیم بن پاتے ہیں کیونکہ لوگوں کی اکثریت اچھی زندگی میں ہی رچ بس کر مسرور رہتی ہے۔ جب ہم کمپنیوں کی بات کرتے ہیں تو کمپنیوں کی بہت بڑی تعداد محنت کے باوجود عظیم نہیں بن پاتیں کیونکہ وہ گڈ پر ہی قناعت کر لیتی ہیں۔ گڈ گریٹ کا دشمن ہے یہ صرف کمپنیوں کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ اگر ہم گڈ ٹو گریٹ کا سنجیدگی سے مطالعہ کریں اور اسی کے مطابق اپنی سوچ کو تبدیل کریں تو اچھے سکول عظیم سکول بن سکتے ہیں، اچھے سرکاری ادارے عظیم سرکاری ادارے بن سکتے ہیں اور اچھی کمپنیاں عظیم کمپنیوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔
قیادت کے پانچ درجے
عظیم کمپنیوں کے رہنما معاشرے کے چھپکتے ہوئے ستارے یا مشہور شخصیات نہیں ہوتیں بلکہ وہ انہی کمپنیوں سے نچلے درجے سے ترقی کر کے اوپر تک پہنچتے ہیں۔ وہ نا قابل یقین حد تک عاجزی اور پیشہ ورانہ مہارت کا مرکب ہوتے ہیں۔ وہ اکثر اوقات اپنی کامیابی کا سہرا اپنی قسمت کے سر رکھتے ہیں نہ کہ اپنی شخصیت کو کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ 5-Level لیڈرز کی اصطلاح سے مراد آر گنائزیشن کی پانچ لیول تک درجہ بندی ہے۔
لیول 1- انتہائی باصلاحیت افراد
لیول 2- بہترین ٹیم ممبر
لیول 3- عمده مینجر
لیول 4 - موثر بزنس لیڈر
لیول 5- لیول 5 لیڈرز ، عاجزی اور پیشہ وارانہ مہارت کا مرکب ہوتے ہیں۔
لیول 5 لیڈرز کی خصوصیات
وہ دوہری شخصیت کے مالک ہوتے ہیں ، ایک طرف تو وہ بہت زیادہ پر جوش ہو ؟ ہیں لیکن اُن کا جوش و جذبہ صرف اپنے ادارے کو عروج تک لے جانے تک محدود ہوتا ہے۔ ایسے رہنما بھی بھی اپنی انا کو راستے میں حائل نہیں ہونے دیتے ۔ وہ مغرور نہیں بلکہ عاجز ہوتے ہیں۔
دو شدید ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ مستقل طور پر اچھے نتائج پیدا کیے جائیں۔
وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اچھے اور محنتی جانشین پیدا کرتے جاتے ہیں تا کہ آنے والی نسل ان سے بھی زیادہ کامیابیاں حاصل کرے۔ ( با نسبت ان کے رہنماوں کے جو براہ راست آتے ہیں اور صرف اس لئے اچھے جانشین نہیں بنا پاتے کہ لوگ انہیں عظیم کہنا چھوڑ دیں گے )۔
نیچے سے اوپر آنیوالے رہنما کامیابی کا جشن تو دوسروں سے مل کر مناتے ہیں لیکن وہ نا کامی کا الزام خود اپنے سر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے جو لوگ ان کے ماتحت کام کرتے ہیں وہ ان سے وفادار ہوتے ہیں۔
وہ مشہور شخصیات نہیں ہوتے ، یہی وجہ ہے اُنکی شخصیت دوسروں کی کوششوں کو دھندلا نہیں کرتی ۔ وہ ہمیشہ اپنے اداروں میں ترقی کرتے ہیں۔ بلاشبہ ایک عظیم کمپنی انسانی محنت کی مرہون منت ہوتی ہے نہ کہ کسی بہت بڑی سرمایہ کاری یا بہت بڑے اقدام کی وجہ سے۔
نیچے سے اوپر آنے والے راہنماوں میں اپنی کمپنی کو ایک عظیم کمپنی بنانے کے لئے کمال کا حوصلہ ہوتا ہے۔ اس مقصد کی خاطر وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں جس کی وہ ضرورت محسوس کرتے ہوں تا کہ واضح نتائج حاصل کئے جاسکیں۔
وہ ایسی صورت حال کے انتظار میں رہتے ہیں جس میں انہیں بہتر سے بہترین نتائج مل سکیں ، جب ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو وہ اس کا کریڈٹ خود نہیں لیتے بلکہ پوری ٹیم کو دیتے ہیں، کیوں کہ نیچے سے اوپر آنے والے لیڈر شروع ہی سے خاموشی سے کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔
وہ ایسے خیالات و نظریات کو اپنا لیتے ہیں جن سے اُن کی کمپنی اچھی سے عظیم بن سکتی ہو۔ وہ ہر وقت غور و فکر کے عادی ہوتے ہیں۔
ایسی کمپنیوں کی انتظامیہ قیادت کے لئے اپنی کمپنی سے باہر نہیں جاتی ، بلکہ دیانت داری سے اپنے ہی اہل کارکنوں کو ترقی دیتی رہتی ہے۔
ایسی کمپنیوں کو یقین ہوتا ہے کہ نیچے سے اوپر آنے والے لیڈران کے اندر ہی موجود ہیں۔ وہ انہیں مستقبل کی ذمہ داریوں کے لئے تیار کرتی رہتی ہیں۔
مصنف نچلی سطح سے ترقی کرنے والے بزنس لیڈرز کی ترقی کے چند مدارج بتاتے ہوئے تبصرہ کرتا ہے: اگر چہ میرے پاس لیڈرز کو پرکھنے کا کوئی سائنسی طریقہ موجود نہیں جسکی مدد سے میں قابل بھروسہ لیڈرز کو جانچ سکوں تاہم میری تحقیق نے نیچے سے اوپر آنے والے کامیاب بزنس لیڈرز کے تجربات کو اس کتاب میں سمو دیا ہے۔ اس تحقیق کا مطالعہ ایک گڈ کمپنی کو گریٹ کمپنی بنا سکتا ہے۔ یوں جم کولنز نیچے سے اوپر آنے والی قیادت کو مسرور کن قرار دیتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ اس کتاب کا نچوڑ بھی یہی لیڈر شپ ہے۔
پہلے کون، پھر کیا
عظمت کی طرف سفر میں یہ اہم نہیں آپ کا مقصد کتنا بڑا ہے بلکہ یہ اہم ہے کہ آپ نے کتنے درست لوگوں کا انتخاب کیا ہے؟ اور ان کو منتخب کرتے وقت آپ کے اصل مقاصد کیا تھے؟ جتنے زیادہ موزوں لوگ ایک بہترین کام پر معمور ہوں گے، اتنے ہی زیادہ اچھے نتائج نکلیں گے۔ اس لئے پہلے کون کرے گا اور پھر کیا کرنا ہے کی طرف جانا چاہیے۔ جیسا کہ کتاب کے آغاز میں ہی بیان کر دیا گیا ہے کہ ایک عظیم کمپنی کے پاس جادو کا چراغ نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی محنت شاقہ سے ایک مقام بنا لیتی ہے۔ دوسری طرف ایک روایتی سوچ یہ ہے کہ آپ ایک ذہین ترین آدمی کی مدد سے کئی لوگ اپنے ارد گرد جمع کر لیں۔ اس کی ذمہ داری لگائیں کہ وہ آپ کو ایک بہترین کمپنی بنا کر دے۔ باالفاظ دیگر ایک ذہین اور کرشماتی لیڈر کو کمپنی کے اغراض و مقاصد متعین کرنے پر نامزد کر دیا جائے اور وہ اپنے معاونین کی مدد سے روایتی انداز میں پہلے کیا اور پھر کون کا فیصلہ کرے۔ یعنی وہ پہلے یہ فیصلہ کرے کہ کرنا کیا ہے؟ پھر یہ طے کرے کہ کس نے کرنا ہے؟ جم کولنز اس سوچ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے رقم طراز ہے، یہ ایک کمزور سوچ ہے کیونکہ اس طرحآپ سوچ کی کنجی ، اختیارات ، اور پہل قدمی جیسی تمام اہم چیزیں ایک ذہین شخصیت کی جھولی میں ڈال بیٹھتے ہیں جو ڈکٹیٹر بن جاتا ہے اور کمپنی کو اپنی مرضی پر چلاتا ہے۔ جب اس کو کسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ جائے یا دوسری جگہ سے ایک اچھی پیشکش آ جائے تو وہ اس کمپنی میں چلا جاتا ہے۔ ان حالات میں آپ کی کمپنی کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس ضمن میں گڈ سے گریٹ بننے والی کمپنیاں بالکل مختلف فیصلہ کرتی ہیں ۔ وہ شروع سے ہی موزوں افراد کا چناو کرتی ہیں۔ جب یہ عمل مکمل ہو جائے تو پھر وہی لوگ فیصلہ کرتے ہیں کہ کمپنی کو کس سمت میں جانا چاہیے۔ پس گڈ سے گریٹ بننے والی کمپنیاں پہلے کون کا مسئلہ حل کرتی ہیں اور پھر کیا کی طرف جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ کمپنی کے اغراض و مقاصد طے کرنے سے پہلے ہی کر لیا جاتا ہے۔ معنی کے بالکل عین مطابق گڈ سے گریٹ بننے والی کمپنیاں سب سے پہلے موزوں لوگوں کی تلاش کرتی ہیں۔ جم کولنز گریٹ کمپنیوں کی حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہوئے مزید کہتا ہے ایسی کمپنیاں بنیادی طور پر فیصلہ سازی کرتے ہوئے تین حکمت عملیوں کو اپناتی ہیں۔
ایک عظیم کمپنی، لیڈر شپ کے انتخاب کے دوران جب شک ہو تو کسی کی خدمات حاصل نہیں کرتی ، بلکہ چپ چاپ دیکھتی ہے، یعنی انتظار کرو اور دیکھو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گڈ سے گریٹ بننے والی کمپنیاں اس تناسب سے ترقی کرتی ہیں جس تناسب سے انہوں نے موزوں افراد کو چنا ہوتا ہے۔
اگر کسی کو نکالنا مقصود ہو تو اس پر فورا عمل کیا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ کمپنیاں شروع ہی سے اچھے لوگوں کا چناؤ کرتی ہیں لیکن پھر بھی اگر کوئی ٹیم ممبرا اچھا پر فام نہ کر رہا ہو تو اس کیلئے پہلے کوئی دوسری موزوں پوزیشن دیکھی جاتی ہے، جہاں اس کو ایڈ جسٹ کیا جاسکے، اگر یہ بھی ممکن نا ہو تو اسے فورا نکال دیا جاتا ہے۔
موزوں لوگوں کو عظیم مواقع پیدا کرنے کے لئے استعمال کریں نہ انہیں مسائل سلجھانے کے لئے استعمال کریں ، آپ موزوں لوگوں سے اپنے تنظیمی مسائل تو حل کروا سکتے ہیں لیکن اس طرح ایک گڈ کمپنی کو گریٹ کمپنی میں تبدیل نہیں کر سکتے ۔ لہذا عظیم کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بہترین لوگ اس جگہ پر لگائیں جہاں انہیں زیادہ سے زیادہ مالی فوائد حاصل ہونے کی توقع ہو۔ کیوں کہ موزوں لوگوں کے پیدا کئے گئے مواقع اُس بچت سے زیادہ ہوں گے ، جو آپ ان کو کاروبار کی کمزور سمت میں لگا کر کمائیں گے لیکن بعد میں وہی کام خسارے کا باعث بنے گا۔
اچھی سے عظیم بنے والی کمپنیاں ایسی صورت حال میں پھننے سے گریز کرتی ہیں کیوں کہ وہ اپنے بہترین لوگوں کو اُس جگہ استعمال کرنا چاہتی ہیں جہاں ان کا کاروبار زوال پذیر ہو اور خسارے والے یونٹس کو منافع بخش یونٹس میں تبدیل کرنا مقصود ہو ۔ جم کولنز کہتے ہیں کا معاملہ سے پہلے حل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اچھی سے عظیم بنے والی کمپنیاں اس بحث میں پڑ جائیں ، کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے اور خواہ مخواہ کی گفتگو شروع ہو جائے۔ اس کے برعکس جب آپ کو پہلے لے آتے ہیں تو ایسی کمپنیوں میں آزاد نہ بحث مباحث اور مسائل کے درست حل کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ کیوں کہ جن لوگوں کی خدمات آپ نے حاصل کی ہوئی ہوتی ہیں وہ عام لوگوں سے کہیں اُونچی سوچ کےمالک ہوتے ہیں۔ وہ ایک نقطے سے دوسرا نقطہ نکالتے ہیں اور ایک مسئلے کے کئی کئی حل تلاش کرتے ہیں ۔ یوں بحث کا مقصد بہترین حل کا حصول ہوتا ہے۔ اچھی سے عظیم بننے والی کمپنیوں کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ بحث و تکرار کے بعد جو بھی حل نکالیں ، سب افراد بطور ٹیم ، اس حل کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ اس بحث میں نہیں الجھتے کہ انکی ترجیحات کیا ہیں؟ اور ان کے مفادات کیا ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ ایسی کمپنیوں کو نا قابل یقین کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں۔ لازمی طور پر جب موزوں لوگوں کی خدمات حاصل کر لی جائیں تو ہر آدمی اپنے حصے کے کام سے لطف اندوز ہوتا ہے کیوں کہ وہ اس کام کے لئے موزوں ہوتا ہے۔ ایسے دوستانہ ماحول میں اچھی سے عظیم بنے والی کمپنیوں کے سر براہ اپنی ٹیم ممبران کے ذاتی دوست بن جاتے ہیں۔
ایسے صحت مندانہ ماحول میں ہر آدمی دوسرے کے ساتھ کام کرنے میں لطف اندوز ہوتا ہے۔ لہذا ان کے میل میلاپ کا مطلب لطف اندوز ہونا اور تعاون کرنا ہوتا ہے نہ کہ ایک دوسرے کے راستے میں روڑے اٹکانا ۔ یوں عظیم کمپنیوں میں دوستی کا دل کش احساس اور مشتر کہ مقصد حیات تمام افراد کی زندگیوں میں یکساں پایا جاتا ہے۔
بنیادی سوچ
(Hedgehog Concept)
ایک مکار لومڑی ہر روز اپنی مکارانہ چالوں کے ساتھ ایک کانٹوں والے چوہے پر حملہ کرتی ہے اور اس خوش ذائقہ کھانے سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہے۔ اس کانٹوں والے چوہے کی ہر نئے حملے کے جواب میں ایک ہی چال ہوتی ہے کہ وہ کانٹوں کی ایک گیند کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اسی سادہ ہی تکنیک پر ہر روز ڈٹے رہنا ہی وہ وجہ ہے جس سے وہ ہر بار بچ جاتا ہے۔
ہیج ہاگ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اچھی سے عظیم
بننے والی کمپنیاں بھی اپنے بنیادی مقصد سے چمٹی رہتی ہیں اور وہی کرتی ہیں جو ان کے خیال میں بہترین ہوتا ہے۔ یوں اچھی سے عظیم بنے والی کمپنیاں مقابلے کی دوڑ میں آگے نکل جاتی ہیں۔ ایسی کمپنیوں کی تین بنیادی خصوصیات ہوتی ہیں
وہ ایسا کام کرتی ہیں جس میں انہیں زیادہ مہارت حاصل ہو۔
جس میں انہیں زیادہ منافع ملنے کی توقع ہو۔
جو کام ان کے کارکنان جوش و جذبے سے کرتے ہوں ۔
زمینی حقائق کا سامنا کرنا
تمام اچھی سے عظیم بننے والی کمپنیاں جانتی ہیں کہ درست نتائج صرف اسی صورت حاصل ہو سکتے ہیں جب چند اچھے فیصلے کر لئے جائیں اور پھر ان پر عمل درآمد بھی ہو۔ اس لحاظ سے عظمت کا راستہ صرف اسی صورت ملتا ہے جب آپ گھمبیر صورت حال کا سامنا کرنا سیکھ جائیں ۔ ہو سکتا ہے وہ صورت حال قیادت کے لئے بے چینی کا باعث ہو۔ اچھی سے عظیم بنے والی کمپنیاں صرف یہ جانتی ہیں کہ زمینی صورت حال کو دیکھ کر فیصلے کئے جائیں ۔ فیصلہ سازی میں اصلیت لانے کے لئے اچھی سے عظیم بننے والی کمپنیاں ایک ایسا ماحول پیدا کر لیتی ہیں جہاں سچ خواہ وہ کتنا ہی تلخ کیوں نہ ہو، سنا جاتا ہے اور اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کیلئے مندرجہ ذیل طریقے اپنائے جاتے ہیں۔
سوالات و جوابات کا موقع دیں : کئی بزنس مینوں کو یہ غلط انہی ہوتی ہے انہیں ہر مشکل صورت ۔ ت حال کا حل نکالنا آتا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ انہیں اصل حقیقت کا سرے سے علم ہی نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اچھی سے عظیم بننے والی کمپنیاں دوسرا راستہ اختیار کرتی ہیں۔ ان کی لیڈر شپ یہ ظاہر کرتی ہے جیسے اسے مشکل صورت حال کا علم ہی نہیں ۔ چنانچہ ان کے رہنما سوال پر سوال پوچھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ اُن پر زمینی حقائق بالکل واضع ہو جاتے ہیں ۔ ان سوالات کا مقصد اصل مسئلے کی تہہ تک ا پہنچنا اور اس کا حل نکالنا ہوتا ہے نہ کہ سوالات سے کسی کو زچ کرنا یا اسکی دل آزاری مطلوب ہوتی ہے۔
وہ مثبت اور تعمیری بحث میں شامل ہو جاتے ہیں: اچھی سے عظیم بننے والی کمپنیاں شدید بحث مباحثے، گرما گرم گفتگو ، اور صحت مندانہ اختلاف سے ترقی کرتی ہیں کیونکہ وہ بحث کی وجہ سے ہی مثبت حل تک پہنچ پاتی ہیں۔ ایسی کمپنیوں کے سی ای او ز زیادہ تر درمیان میں مصالحت کار اور سہولت کار کے فرائض سر انجام دیتے ہیں تا کہ بحث کسی مثبت نتیجے پر پہنچنے سے پہلے تعطل کا شکار نہ ہو جائے ۔ ان کو یقین کامل ہوتا ہے کہ اچھے فیصلے عام طور پر گرما گرم دلائل اور بحث سے ہی برآمد ہوتے ہیں۔
بحث مباحثے کا مطلب سیکھنا ہوتا ہے نہ کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا : اچھی سے عظیم بنے والی کمپنیاں بھی فیصلوں میں غلطیاں کرتی ہیں لیکن اُن کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کی پردہ پوشی نہیں کرتیں۔ غلطیاں ان کے لئے مزید سیکھنے کا باعث بنتی ہیں چنانچہ ہر فرد اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے لئے بے چین رہتا ہے۔
اپنی غلطیوں کو مثال بنا کر سیکھنا: یہ مکن نہیں کہ ایک اچھی سے عظیم بنے والی کمپنی کے پاس اپنی رقیب کمپنیوں سے زیادہ وسائل یا معلومات ہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس ایک سرخ فیتہ یعنی فلیگ ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ سابقہ غلطی کو فائل میں لگا کر اس پر فلیگ لگا لیتی ہیں تا کہ اس غلطی کو دوبارہ کبھی بھی نہ دھرائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اچھی سے عظیم بننے والی کمپنیاں صرف ان چیزوں پر توجہ مرکوز رکھتی ہیں جو ان کے لئے اہم ہوتی ہیں اور جو اہم نہیں ہوتیں ، انہیں نظر انداز کر دیتی ہیں۔ یہ عمل ادارے کے اندر کے ماحول کو سازگار بناتا ہے جہاں سچ کو ہمیشہ حوصلے سے سنا جاتا ہے نہ کہ اسے خاموشی سے دفن کر دیا جاتا ہے۔
ایسی کمپنیوں کو بھی مارکیٹنگ کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن بہتر سے بہترین مارکیٹنگ کی بدولت یہ کمپنیاں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہیں اور لوگ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اور دوسری کمپنیوں میں فرق کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ ایسی کمپنیاں ہمیشہ ان فیصلوں پر نظر رکھتی ہیں جو ان کی نظر میں زیادہ مشکل ہوں ۔ ان کمپنیوں میں نفسیاتی وہرے پن کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے جہاں ایک طرف تو ان کے لوگ مارکیٹنگ کے تلخ حقائق قبول کرتے ہیں تو دوسری طرف کامیابی کے غیر متزلزل یقین کو بحال رکھتے ہیں۔ ایسی کمپنیاں مشکلات پر غالب آجاتی ہیں خواہ انہیں کامیابی کے حصول میں کئی سال ہی کیوں نہ لگ جائیں ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایسی کمپنیوں کے سربراہان کی سوچ بدلتی رہتی ہے کیوں کہ مارکیٹنگ کی تلخ حقیقتیں شخصیات سے زیادہ اہم ہوتی ہیں اور بعض دفعہ تو سر براہ انہیں اپنے ہی زاویے سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لئے ایسی کمپنیوں میں کسی ایک فراد پر تکیہ نہیں کیا جاتا۔
جم کولنزئی اور ابھرتی ہوئی قیادت کو کامیابی کا پہلا زینہ قرار دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں ہر حال میں نئی قیادت کو ابھر کر سامنے آنے دیا جائے ۔ لوگ صرف حقائق اور نتائج سے متاثر ہوں ، نہ کہ سر برہان کی ذاتی خواہشات انہیں متاثر کریں۔ کامیاب کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ممبران کو زمینی حقائق سے آگاہ رکھیں کیوں کہ کارکنان کو اس سے زیادہ کوئی چیز مایوس نہیں کرتی جتنا کہ مارکیٹنگ کی دشواریاں ۔ جم کولنز کہتے ہیں کہ اچھی کمپنی سے عظیم کمپنی کے سفر کے دوران یہ ضروری نہیں کہ آپ کے پاس تمام سوالات کے جوابات موجود ہوں بلکہ ال کا مطلب صرف اتنا ہے کہ آپ عجز و انکساری سے سوالات کی بدولت یہ جان پائیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے؟ وہ سجھتا ہے کہ قیادت ایک واضح مقصد حیات کا نام ہے۔ لیکن قیادت کا مقصد یہ بھی تو ہے کھرے اور تلخ سچ کا سامنا بھی بہادری سے کیا جائے۔ یہ فطرت کے ہی خلاف ہے کہ آپ خود تو بولتے جائیں لیکن دوسروں کو بولنے کا موقع نہ دیں۔ اچھی سے عظیم بنے والی کمپنیوں کے قائد اس فرق کو باپ جاتے ہیں کہ کس طرح موقع پیدا کیا جائے تا کہ سب کی آواز سنی جاسکے اور کسی نتیجے پر پہنچا جائے۔ تمام اچھی سے عظیم بننے والی کمپنیوں کے سابقہ ریکارڈ سے ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کے سر برا ہوں نے گرما گرم مباحثوں کی حوصلہ افزائی کی اور ان سے درست حل نکالا۔
نظم وضبط کا کلچر
نظم وضبط کے کلچر سے مراد ادارے کو ایسے افراد سے لیس کر دیا جائے جو ایک منظم عمل کے عادی ہوں جو ادارے کی بنیادی پالیسی سے ہم آہنگ ہو کر چلنے والے ہوں لیکن ایسا ماحول بنانے کیلئے پانچ چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے
طے شدہ راستے پر چلتے ہوئے آزادی سے عمل کرنا: اچھی سے عظیم بننے والی کمپنیاں ایک متواتر آپریشنل نظام کے تحت چلتے ہوئے اپنے مقامی منیجرز کو اس بات کی آزادی دیتی ہیں کہ وہ جو موزوں سمجھیں کریں، تاہم وہ قوانین سے ماورا نہیں ہوتے۔
ایسے افراد کا ساتھ دینا جو ذاتی نظم وضبط میں اپنی مثال آپ ہوں: اچھی سے عظیم بنے والی کمپنیاں وہ ہوتی ہیں جو سب سے پہلے اپنی اندرونی صفوں کو درست کرتی ہیں اور اس کے بعد اپنی کار کردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ وہ یکسوئی کے ساتھ اس کام پر توجہ دیتی ہیں جو ان کا سب سے مضبوط ہتھیار ہو۔ اور نت نئے تجربات کرنے سے گریز کرتی ہیں بلکہ اپنے اصل مقصد سے رتی بھر بھی پیچھے نہیں بنتیں۔
وہ ایک مضبوط ثقافت پروان چڑھاتی ہیں نہ کہ آمریت : اچھی سے عظیم بننے والی کمپنیوں کے سی ای اور کبھی بھی جابر نہیں ہوتے جو اپنی شخصیت کے بل بوتے پر لوگوں کو کام پر مجبور کرتے ہوں۔ ان کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ وہ نظم وضبط سے بھر پور ایک ایسی ثقافت پروان چڑھا نہیں گے جہاں تمام لوگ ایک مشین کے انجن کی طرح آپس میں مل کر کام کریں۔ یہ مقصد ان تین چیزوں پر عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔
کمپنی کس کام میں بہترین ہے؟
کمپنی کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ کیا ہے؟
اس کے کارکن کسی کام میں زیادہ دریچسپی لیتے ہیں؟
اپنے بنیادی مقصد سے مخلص رہنا: ایک متوسط کمپنی کی پہچان یہ ہے کہ وہ بیک وقت کئی کئی منصوبوں اور پروی ر پروجیکٹس پر کام شروع کر لیتی ہے لیکن اس کے برعکس ایک اچھی سے عظیم بنے والی کمپنی کبھی بھی ایسے کاموں میں ہاتھ نہیں ڈالتی جن میں وہ ماہر نہ ہو، نہ ہی وہ کسی ایسے ایڈونچر میں پھنستی ہے جہاں دوسری کمپنیوں کے ساتھ ملکر مشترکہ پروجیکٹ پر کا کام کیا جا رہا ہو۔ اس کو جم کو لنز نے بیچ باگ یعنی بنیادی مقصد سے چھٹے رہنے والے چوہے کی سوچ سے تعبیر کیا ہے۔
مستقبل کے کاموں کی فہرست کا نہ ہونا : کئی کمپنیوں نے مستقبل میں ہونے والے کاموں کی ایک فہرست تیار کی ہوئی ہوتی ہے۔ لیکن جم کولنز کے خیال میں اچھی سے عظیم بننے والی کمپنیوں کے پاس مستقبل کے کام کی فہرست نہیں ہوا کرتی۔ وہ اپنے فنڈ ز کو عام منصوبوں پر خرچ نہیں کرتیں بلکہ ایسے کاموں پر کرتی ہیں جو ان کے بنیادی مقصد کی تائید کرتے ہوں۔
جم کولنز کہتے ہیں اچھی سے عظیم بننے والی کمپنیاں باہر سے کمزور اور بے رونق سی نظرآتی ہیں لیکن جب انکے اندر کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ایسے افراد سے بھری پڑی ہیں جو سخت محنتی ہیں۔ مصنف اس بات پر زور دیتا ہے کہ آپ نظم وضبط کے کلچر کو خبر میں گڈمڈ نہ کریں کیوں کہ وہ سی ای اوز جو سختی سے کام کروانے کے عادی ہوں مستقل بنیادوں پر اچھے نتائج دینے میں ناکام رہتے ہیں۔
نظم وضبط کی سب سے بڑھیا مثال یہ ہے کہ آپ اپنے بنیادی مقصد سے چھٹے رہیں اور اسی پر خرچ کریں اور اسے ہی بہتر کریں۔ ایسے کاموں کو چھوڑ دیں جو آپ کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک کمپنی کی کامیابی کا دار و مدار منظم لوگوں کو کمپنی میں لانے پر ہے اگر غلط لوگ اچھی جگہ پر آجائیں تو نتائج خراب ہوں گے۔ اس کے برعکس اگرموزوں لوگ مناسب جگہ پر آجا ئیں تو ایک اچھی کمپنی خود بخود ہی عظیم کمپنی بن جائے گی۔ ایسا ماحول جس میں فیصلے تھو نے نہ جائیں ، مصنف کے خیال میں بیوکریسی کا ماحول صرف اُس وقت ناگزیر ہو جاتا ہے جب آپکی کشتی میں بہت سے نااہل لوگ سوار ہو جائیں۔ اگر آپ کی کشتی میں موزوں لوگ سوار ہوں اور ناموزوں لوگ دور ہو جائیں تو آپ کو بیوکریسی کے سہارے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ یہاں بیورو کریسی سے مراد جبر سے لوگوں پر ڈسپلن نافذ کرنا ہے اور عظیم کمپنیوں میں کوئی ایک شخص نظم وضبط نافذ نہیں کرتا ، اس میں سبھی شامل ہوتے ہیں اور یہ عمل ایک خود کار نظام کے تحت خوبخود چلتا رہتا ہے۔
ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال
اچھی سے عظیم بننے والی کمپنیاں ٹیکنالوجی کو مختلف طریقے سے دیکھتی ہیں۔
وہ کسی بھی نئی ٹیکنالوجی کو اپنے بنیادی نظریے یعنی اپنے اصل کام سے جوڑتی ہیں۔ وہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بہت آگے ہونے کے باوجود، اس کے استعمال میں خاصی محتاط واقع ہوتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کے استعمال پر ان کا ایک ہی سوال ہوتا ہے۔ کیا یہ ٹیکنالوجی ہمارے بنیادی نظریئے یعنی بنیادی کام سے مطابقت بھی رکھتی ہے یا نہیں؟ اگر ٹیکنالوجی اس لحاظ سے کار آمد ہوتو اپنالیتی ہیں، اگر نہ ہو تو اسے اختیار نہیں کرتیں۔
وہ ٹیکنالوجی کو اس کے ماہرین کی سوچ سے بھی آگے جا کر استعمال کرتی ہیں، اگر ایک مرتبہ ایک اچھی سے عظیم بننے والی کمپنیاں اپنی ضرورت کی ٹیکنالوجی حاصل کر لیں تو وہ اس پہلو پر بہت محنت کرتی ہیں کسی طرح اس ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جائے جو اس ٹیکنالوجی کے ماہرین کے علم میں بھی نہ ہو۔
ٹیکنالوجی کے استعمال میں ان کی سوچ متوازن ہوتی ہے، میڈیا اور ثقافت نئی ٹیکنالوجی کا تیزی سے نوٹس لیتے ہیں لیکن اچھی سے عظیم بننے والی کمپنیاں اس کے بارے میں ایک معتدل نظریہ رکھتی ہیں کیونکہ وہ ٹیکنالوجی کو اپنی کامیابیوں میں کلیدی نہیں سمجھتیں۔ وہ اس پر زیادہ بات چیت بھی کرنا گوارا نہیں کرتیں۔ ایسی کمپنیوں کے لوگ اگر چہ ٹیکنالوجی کو اہم سمجھتے ہیں لیکن اپنی کامیابی کے لئے لازمی خیال نہیں کرتے۔ لہذا ایسی کمپنیوں میں یہ اہم ہوتا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو کیسے ستعمال کیا جائے نہ کہ دوسروں کے ساتھ مقابلہ کیسے کیا جائے ۔ اگر ٹیکنالوجی ان کے بنیادی مقصد سے مطابقت رکھتی ہو تو کمپنی کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دے گی۔ لیکن اگر اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کیا جائے تو وہ کمپنی کے زوال کا باعث بنے گی۔
مختصر یہ ہے کہ کوئی بھی ٹیکنالوجی خواہ وہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، کسی کمپنی کو خود بخود اچھی سے عظیم کی صفوں میں نہیں لاسکتی۔ کوئی بھی ٹیکنالوجی آپ کے لئے نچلی سطح سے اوپر آنے والے قائد پیدا نہیں کر سکتی۔ اسی طرح کوئی بھی ٹیکنالوجی غلط لوگوں کو ٹھیک جگہ آنے سے نہیں روک سکتی۔ کوئی بھی ٹیکنالوجی ایسا نظم وضبط پیدا نہیں کر سکتی جس سے بے رحم زمینی حقیقتیں بدل سکتی ہوں ۔ اسی طرح کوئی ٹیکنالوجی آپ کے ذہن میں یہ سوچ نہیں ڈال سکتی کہ آپ اپنی اصل قوت کو میز پر چھوڑ کر صرف ایک اچھی کمپنی کے طور پر زندہ رہیں ، جب کہ آپ ایک عظیم کمپنی بن سکتے ہیں۔
Comments
Post a Comment