سرمایہ دارانہ نظام کیا ہے

(Capitalismسرمایه دارانه نظام

سب سے پہلے سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں سمجھئے کہ اس نے ان چار مسائل کو کن بنیادوں پر حل کرنے کا دعوی کیا ہے؟ اور ان کو حل کرنے کے لئے کیا فلسفہ پیش کیا ہے؟

سرمایہ دارانہ نظام کا کہنا یہ ہے کہ ان چاروں مسائل کو حل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہر انسان کو تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں کے لئے بالکل آزاد چھوڑ دیا جائے، اور اسے یہ چھوٹ دے دی جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لئے جو طریقہ مناسب سمجھے اختیار کرے۔ اس سے معیشت کے مذکورہ بالا چاروں مسائل آپ ہی آپ حل ہوتے چلے جائیں گے، کیونکہ جب ہر شخص کی فکر یہ ہوگی کہ میں زیادہ سے زیادہ نفع کماؤں تو ہر شخص معیشت کے میدان میں وہی کام کرے گا جس کی معاشرے کو ضرورت ہے، اور اس کے نتیجے میں چاروں مسائل خود بخود ایک خاص توازن کے ساتھ لے ہوتے چلے جائیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ چاروں مسائل خود بخود کس طرح حل ہوں گے؟ اس سوال کے جواب کے لئے تھوڑی سی تفصیل کی ضرورت ہے۔

اس تفصیل لئے مندرجہ ذیل نکات قابل ذکر ہیں

در حقیقت اس کا ئنات میں بہت سے قدرتی قوانین کارفرما ہیں، جو ہمیشہ ایک جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں، انہی میں سے ایک قانون رسد اور طلب کا بھی ہے۔ رسد کسی بھی سامان تجارت کی اس مجموعی مقدار سے عبارت ہے جو بازار میں فروخت کے لئے لائی گئی ہو اور طلب خریداروں کی اس خواہش کا نام ہے کہ وہ یہ سامان تجارت قیمتا بازار سے خریدیں۔ اب رسد و طلب کا قدرتی قانون یہ ہے کہ بازار میں جس چیز کی رسد طلب کے مقابلے میں زیادہ ہو، اس کی قیمت گھٹ جاتی ہے، اور جس چیز کی طلب اس کی رسد کے مقابلے میں بڑھ جائے اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ مثلا گرمی کے موسم میں جب گرمی زیادہ پڑنے لگے تو بازار میں برف کے خریدار زیادہ ہو جاتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ برف کی طلب بڑھ گئی ، اب اگر برف کی مجموعی پیداوار یا بازار میں پائی جانے والی برف کی مجموعی مقدار اس طلب کے مقابلے میں کم ہو، تو یقینا برف کی قیمت بڑھ جائے گی۔ الا یہ کہ اس وقت برف کی پیداوار میں اتنا ہی اضافہ ہو جائے جتنا طلب میں اضافہ ہوا ہے تو پھر قیمت نہیں بڑھے گی۔ دوسری طرف سردی کے موسم میں برف کے خریدار کم ہو جاتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ برف کی طلب گھٹ گئی۔ اب اگر بازار میں برف کی مجموعی مقدار اس طلب کے مقابلے میں زیادہ ہو تو یقیناً برف کی قیمت میں کمی آجائے گی۔ یہ ایک قدرتی قانون ہے، جس کو قانون رسد وطلب کہا جاتا ہے۔

 سرمایہ دارانہ نظام کا فلسفہ یہ کہتا ہے کہ رسد و طلب کا یہ قدرتی قانون ہی در حقیقت زراعت پیشہ افراد کے لئے اس بات کا تعین کرتا ہے کہ وہ اپنی زمینوں میں کیا چیز اُگائیں؟ اور یہی قانون صنعت کاروں اور تاجروں کے لئے اس بات کا تعین کرتا ہے کہ وہ کیا چیز کتنی مقدار میں بازار میں لائیں؟ اور اس طرح معیشت کے چاروں مذکورہ بالا مسائل خود بخود طے ہوتے چلے جاتے ہیں۔

طلب و رسد کے قانون سے ترجیحات کا تعین اس طرح ہوتا ہے کہ جب ہم نے ہر شخص کو زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لئے آزاد چھوڑ دیا تو ہر شخص اپنے منافع کے خاطر وہی چیز بازار میں لانے کی کوشش کرے گا، جس کی ضرورت یا طلب زیادہ ہوگی، تاکہ اسے اس کی زیادہ قیمت مل سکے۔ زراعت پیشہ افراد وہی چیزیں اگانے کو ترجیح دیں گے جن کی بازار میں طلب زیادہ ہے اور صنعت کار وہی مصنوعات تیار کرنے کی کوشش کریں گے جن کی بازار میں زیادہ مانگ ہے، کیونکہ اگر یہ لوگ ایسی چیزیں بازار میں لائیں، جن کی طلب کم ہے، تو انہیں زیادہ منافع نہیں مل سکے گا۔اسکا نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص اگر چہ اپنے منافع کے خاطر کام کر رہا ہے، لیکن رسد و طلب کی قدرتی طاقتیں اسے مجبور کر رہی ہیں کہ وہ معاشرے کی طلب اور ضرورت کو پورا کرے۔ یہاں تک کہ جب کسی چیز کی پیداوار بازار میں اتنی آجائے کہ وہ اس کی طلب کے برابر ہو جائے تو اب اسی چیز کا مزید پیدا کرنا چونکہ تاجر اور صنعت کار کے لئے نفع بخش نہیں ہوگا، اس لئے اب وہ اس کی پیداوار بند کر دے گا۔ اس طرحمعاشرے میں صرف وہی چیزیں پیدا ہوں گی جن کی معاشرے کو ضرورت ہے، اور اتنی ہی مقدار میں پیدا ہوں گی جتنی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے واقعتا درکار ہے، اور اس کا نام ترجیحات کا تعین ہے۔

(Allocation of Resources)وسائل کی تخصیص

 اس کا تعلق بھی در حقیقت ترجیحات کے تعین سے ہے، جب کوئی شخص ترجیحات کا باقاعدہ تعیین کر لیتا ہے تو اس حساب سے موجودہ وسائل کو مختلف کاموں میں لگاتا ہے، لہذا رسد و طلب کے قوانین جس طرح ترجیحات کا تعین کرتے ہیں، اسی طرح وسائل کی تخصیص کا کام بھی ساتھ ساتھ انجام دیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہر شخص اپنے وسائل یعنی زمین ، سرمایہ اور محنت کو اس کام میں لگاتا ہے تا کہ وہ ایسی چیزیں بازار میں لاسکے جن کی بازار میں طلب زیادہ ہے اور اسے منافع زیادہ حاصل ہو۔ لہذا رسد و طلب کے قوانین کے ذریعے وسائل کی تخصیص کا مسئلہ بھی خود بخود طے ہو جاتا ہے۔

 تیسرا مسئلہ آمدنی کی تقسیم کا ہے، بعض عمل پیدائش کے نتیجے میں جو

پیداوار یا آمدنی حاصل ہوئی، اسے معاشرے میں کس بنیاد پر تقسیم کیا جائے؟ سرمایہ دارانہ نظام کا کہنا یہ ہے کہ جو کچھ آمدنی حاصل ہو وہ انہی عوامل کے درمیان تقسیم ہوئی چاہئے جنھوں نے پیدائش کے عمل میں حصہ لیا۔ سرمایہ دارانہ فلسفے کے مطابق یہ عوامل کل چار ہیں۔

  زمین 2- محنت 3 - سرمایه -4- آجر یا تنظیم

آجر یا تنظیم سے مراد وہ شخص ہے جو ابتداء کسی عمل پیدائش کا ارادہ کر کے پہلے تین عوامل کو اس کام کے لئے اکھٹا کرتا ہے اور نفع نقصان کا خطرہ مول لیتا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کا کہنا یہ ہے کہ عمل پیدائش کے نتیجے میں جو کچھ آمدنی ہو وہ اس طرحتقسیم ہونی چاہئے کہ زمین مہیا کرنے والے کو کرایہ دیا جائے ، محنت کرنے والے کو أجرت دی جائے، سرمایہ فراہم کرنے والے کو سود دیا جائے، اور وہ آجر جو اس عمل پیدائش کا اصل محرک تھا، اسے منافع دیا جائے ۔ یعنی زمین کا کرایہ، محنت کی اُجرت اور سرمائے کا سود ادا کرنے کے بعد جو کچھ بچے وہ آجر کا منافع ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ تعین کس طرح ہو کہ زمین کو کتنا کرایہ دیا جائے گا؟ محنت کو کتنی اُجرت دی جائے گی ؟ اور سرمائے کو کتنا سود دیا جائے گا؟ اس سوال کے جواب میں سرمایہ دارانہ فلسفہ پھر اس قانون رسد و طلب کو پیش کرتا ہے، یعنی یہ کہتا ہے کہ ان تینوں عوامل کے معاوضے کا تعین ان کی طلب و رسد ہی کی بنیاد پر ہوتا ہے، ان عوامل میں سے جس عامل کی طلب زیادہ ہوگی اس کا معاوضہ بھی اتنا زیادہ ہوگا۔

فرض کیجئے کہ زید ایک کپڑے کا کارخانہ لگانا چاہتا ہے، چونکہ وہ اس صنعت کے قائم کرنے کا محرک ہے اور وہی نفع نقصان کا خطرہ مول لے کر عوامل پیداوار کو اکٹھا کرنے کا ذمہ دار ہے، اس لئے معاشی اصطلاح میں   اس کو آجرکہا جاتا ہے۔ اب اسے کارخانہ لگانے کے لئے پہلے تو زمین کی ضرورت ہے، اگر زمین اس کے پاس نہیں ہے تو اسے کہیں سے کرایہ پر لینی پڑے گی ، اب اس کرایہ کا تعیین زمین کی رسد و طلب کی بنیاد پر ہوگا، یعنی اگر زمین کرایہ پر دینے والے بہت سے ہیں یعنی زمین کی رسد زیادہ ہے اور لینے والے اس کے مقابلے میں کم ہیں، یعنی طلب کم ہے، تو زمین کا کرایہ سستا ہوگا اور اگر اس کے برعکس صورت ہو تو زمین کا کرایہ مہنگا ہوگا ۔ اس طرح رسد و طلب کے قوانین کرایہ کا تعین کریں گے۔

پھر اسے کارخانے میں کام کرنے کے لئے مزدور درکار ہوں گے، جن کو معاشی اصطلاح میں محنت سے تعبیر کیا جاتا ہے، انہیں اجرت دینی پڑے گی، اس اجرت کا تعین بھی رسد و طلب کی بنیاد پر ہوگا، یعنی اگر بہت سے مزدور کام کرنے کےلئے تیار ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محنت کی رسد زیادہ ہے، لہذا اس کی اجرت کم ہوگی ۔ لیکن اگر اس کارخانے میں کام کرنے کے لئے زیادہ مزدور مہیا نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی رسد کم ہے، لہذا انہیں زیادہ اُجرت دینی پڑے گی۔ اس طرح اُجرت باہمی گفت و شنید کے نتیجے میں اس مقام پر متعین ہوگی، جس پر رسد و طلب دونوں کا اتفاق ہو۔

اسی طرح کارخانہ لگانے والے کو مشینری اور خام مال وغیرہ خریدنے کے لئے سرمائے کی ضرورت ہوگی، جس پر سرمایہ دارانہ نظام میں اسے سود دینا پڑے گا، اس سود کی مقدار بھی رسد و طلب کی بنیاد پر طے ہوگی ۔ اگر قرض دینے والے بہت سے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سرمائے کی رسد زیادہ ہے لہذا کم شرح سود پر کام چل جائے گا، لیکن اگر سرمایہ دار کو قرض دینے والے کم ہیں تو زیادہ شرح سود ادا کرنی پڑے گی۔ اس طرح شرح سود کا تعین بھی رسد و طلب کا بنیاد پر ہوگا، اور جب رسد و طلب کی مذکورہ بنیادوں پر کرایہ، اُجرت اور سود کا تعین ہو گیا تو کارخانے کی پیداوار کے نتیجے میں جو آمدنی ہوگی ، اس کا باقی ماندہ حصہ آجر کو نفع کے طور پر ملے گا۔ اس طرح آپ نے دیکھا کہ آمدنی کی تقسیم کا بنیادی مسئلہ بھی سرمایہ دارانہ

نظام میں رسد و طلب کے قوانین کے تحت انجام پاتا ہے۔ چوتھا معاشی مسئلہ ترقی کا ہے، یعنی ہر معیشت کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنی پیداوار کو ترقی دے اور اپنی پیداوار میں کما اور کیف اضافہ کرے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے فلسفے کے مطابق یہ مسئلہ بھی اس بنیاد پر حل ہوتا ہے کہ ہر شخص کو جب زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لئے آزاد چھوڑا جائے گا تو رسد و طلب کے قدرتی قوانین اسے خود بخود اس بات پر آمادہ کریں گے کہ وہ نئی سے نئی چیزیں اور بہتر سے بہتر کوالٹی بازار میں لائے ، تاکہ اس کی مصنوعات کی طلب زیادہ ہو اور اسے زیادہ نفع حاصل ہو۔

***



Comments

Popular Posts

اچھی صحت کے راز اچھی صحت کے بارے میں میں آج آپکو کچھ ٹیپس بتاتا ہوں جو آپکے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں 01.رات کو جلدی سونا. 02.رات کو سونے سے پہلے ایسا لباس استعمال کرنا جو آپکی نیند میں خلل نہ ڈالے مثال کے طور پر اکثر ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ایسا ڈریس استعمال کرتے ہیں جس سے رات کو انکی نیند میں خلل آتا ہے سکون کی نیند سو نہیں سکتے اسیطرح رات کو سونے سے پہلے کوئی چیز نہ کھائیں اس سے مراد سونے سے کم از کم تین گھنٹے پہلے کوئی چیز کھائیں جو سونے تک آپ کے جسم پے بوجھ نہ رہے بلکہ سونے کے ٹائم تک آپ اسے ڈائی جیسٹ کر لیں 03.سونے سے پہلے پانی کا استعمال کم کرنا تا کہ رات کو سوتے ہوئے آپکی نیند میں خلل نہ آئے کیوں کہ اچھی صحت کا راز اچھی نیند ہے نیند پوری نہ ہو یا بندہ سوتے وقت اگر آرام دہ اپنے آپکو محسوس نہ کرے تو صحت کی خرابی کا باعث بنتا ہے صبح جلدی اٹھنا صحت کے لیے بہت اچھا ہے کیوں کہ صبح کی تازہ ہوا انسان کی زندگی میں مثبت کردار ادا کرتی ہے اس لیے اس بات کا باخوبی آپکو پتا ہونا چاہیے پریشانیوں کو اپنے سے دور رکھنا انسان کے بس میں ہے کہ وہ اپنے آپکو کیسے مینج کرتا ہے اگر تو ہر وقت انسان غصے میں رہے تو بھی اسکی صحت پے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اگر حالات سے بندہ تنگ یو تو اسے چاہیے کے اپنے حالات کو درست کرنے کے لیے ایس جگہ کا انتخاب کرے جہاں اسے ذہنی اور جسمانی سکون ہو کیوں کہ یہ صحت پہ ڈائریکٹ اثر ڈالتا ہے اچھی غذائیں استعمال کرنا سبزیوں کا استعمال زیادہ کرنا کوشش کر کے قدرتی اجزا کو زیادہ ترجیع دینا صاف پانی کا استعمال کرنا تازہ ہوا کے اندر اپنے آپکو زیادہ لے کے جانا آلودگی والے ماحول سے اپنے آپکو بچانا یہ ساری چیزیں اچھی صحت کے لیے کارآمد ثابت ہوتی ہیں